آیات 54 - 55
 

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَہَرٍ ﴿ۙ۵۴﴾

۵۴۔ اہل تقویٰ یقینا جنتوں اور نہروں میں ہوں گے ۔

فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ﴿٪۵۵﴾

۵۵۔ سچی عزت کے مقام پر صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں۔

تفسیر آیات

۱۔ اہل تقویٰ کے لیے جنت میں مختلف نہریں ہوں گی۔ سورہ محمد میں ان نہروں کا ذکر آیا ہے:

مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ فِیۡہَاۤ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَیۡرِ اٰسِنٍ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ یَتَغَیَّرۡ طَعۡمُہٗ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ ۬ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّی۔۔۔۔ (۴۷ محمد: ۱۵)

جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو (کبھی) بدبودار نہ ہو گا اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ نہیں بدلے گا اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے لذت بخش ہو گی اور خالص شہد کی نہریں (بھی) ہیں۔

۲۔ فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ: مقام ایسا ہو گا جس میں کسی قسم کے غیر حقیقی ہونے کا شائبہ نہ ہو گا۔ یعنی اہل تقویٰ جنت میں جس مقام پر فائز ہوں گے، جو عزت و اکرام انہیں حاصل ہو گا، وہ سچا ہو گا۔ دھوکہ نہیں ہو گا، زائل ہونے والا وقتی نہ ہو گا، دائمی ہو گا، عارضی نہ ہوگا اور سچا مقام ہو گا۔ جب کہ دنیا میں جو مقام حاصل ہوتا ہے وہ عارضی، واہمے سے زیادہ نہیں ہوتا۔

۳۔ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ: معنوی اور روحانی اعتبار سے اس کے جوار میں ہو گا جو صاحب اقتدار بادشاہ ہے۔ اس ذات کی قربت میں عِنۡدَ مَلِیۡکٍ ہونا تمام نعمتوں سے بالاتر نعمت ہے۔ یہ نعمت ناقابل وصف و بیان ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۷۲)

اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے۔

اللہ کی خوشنودی ناقابل وصف و بیان ہے اور اس خوشنودی کے نتیجے میں ملنے والی قربت بھی ناقابل وصف و بیان نعمت ہو گی۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مدح المکان بالصدق فلا یقعد فیہ الا اھل الصدق۔ (معالم التنزیل فی تفسیر القرآن ۴ : ۳۳۰)

اللہ نے اس مکان کو سچائی کے ساتھ متصف کیا ہے، پس اس میں صرف اہل صدق ہی رہ سکیں گے۔

اسئل اللہ سبحانہ ان یرزقنا قربہ وان یجعلنا من الذین یسکنون فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ۔


آیات 54 - 55