آیت 50
 

وَ مَاۤ اَمۡرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور ہمارا حکم بس ایک ہی ہوتا ہے پلک جھپکنے کی طرح۔

تفسیر آیات

۱۔فرمایا: ہم جب کسی چیز کا ارادہ کر لیتے ہیں تو اس کے متعلق ایک امر صادر کرنا ہوتا ہے۔ نہ متعدد اوامر کی ضرورت ہے، نہ وسائل کی ضرورت ہے اور نہ اسباب درکار ہیں۔ وہ امر کلمہ کُنۡ ہے۔ یعنی الا کلمۃ واحدۃ ۔ یہاں امر سے مراد امر تکوینی ہے جیسے:

اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (۳۶ یٰس: ۸۲)

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ کہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔

۲۔ کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ: پلک جھپکنا۔ ایک تعبیر ہے اس بات کی وضاحت کے لیے کہ ارادۂ الٰہی اور امر تکوینی، زمانی نہیں ہوتا یعنی امر خدا کے لیے زمانہ درکار نہیں ہوتا۔ اِدھر ارادہ کر لیا، اُدھر جس کا ارادہ کیا گیا ہے وہ وجود میں اسی طرح آگیا جس طرح ارادہ کیا گیا ہے۔

روزنامہ جنگ راولپنڈی مورخہ ۱۸ مارچ ۲۰۱۴ میں یہ خبر چھپی ہے: امریکہ کے ماہر طبیعیات ایلن گتھ کا کہنا ہے کہ کائنات کے ۱۴ ارب سال قبل عظیم دھماکے کے نتیجے میں ایک سیکنڈ کے دس کھرب ویں حصے میں وجود میں آنے کے بارے میں سائنسدانوں میں بحث پھوٹ پڑی ہے۔

وَ مَاۤ اَمۡرُ السَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمۡحِ الۡبَصَرِ۔ (۱۶ نحل: ۷۷)

اور قیامت کا معاملہ تو ایسا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا۔


آیت 50