آیت 2
 

مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾

۲۔ تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ صَاحِبُکُمۡ: صاحب یعنی ساتھی، رفیق۔ ایک محاورہ ہے جہاں کوئی اور رشتہ بتانا منظور نہ ہو تو وہاں صَاحِبُکُمۡ کہتے ہیں۔ جیسے ہم ’’یار‘‘ کہتے ہیں۔

۲۔ساتھ یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تمہارے رفیق ہیں۔ تمہارے درمیان زندگی کرنے والے ہیں ان کے خلق و خو، عادات مزاج اور سیرت و کردار سے تم بخوبی باخبر ہو۔

۳۔ مَا ضَلَّ: نہ تمہارے ساتھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راہ حق سے بھٹکے ہیں نہ ہی بہکے ہیں۔ ضَلَّ گمراہی، ہَدٰي کے مقابلے میں ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

فَرِیۡقًا ہَدٰی وَ فَرِیۡقًا حَقَّ عَلَیۡہِمُ الضَّلٰلَۃُ۔۔۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۳۰)

(اللہ نے) ایک گروہ کو ہدایت دے دی ہے اور دوسرے گروہ پر گمراہی پیوست ہو چکی ہے۔

جب کہ غَوٰی ، رشد کے مقابلے میں ہے۔ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۵۶) رشید، صائب الرائے کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تو غلط راستے پر ہیں، نہ غلط عقیدے پر۔ ان کا راستہ وہ ہے جو انسان کو صحیح منزل تک پہنچا دیتا ہے اور ان کا عقیدہ بھی وہ ہے جو انسان کو حق اور حقیقت سے ہمکنار کرتا ہے۔

فضیلت: انس بن مالک راوی ہیں:

ایک رات ایک ستارہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام)کے گھر نازل ہوا تو لوگوں نے اس بارے میں کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )، علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی محبت میں گمراہ ہو گئے ہیں۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں: وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی ﴿﴾ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ﴿﴾

ملاحظہ ہو المناقب مغازلی صفحہ ۲۶۶۔ لسان المیزان ۲: ۴۴۹۔ العمدۃ لابن بطریق صفحہ۴۴۔ تفصیل مصادر کے لیے ملاحظہ ہو: حاشیہ شواہد التنزیل ذیل آیت۔


آیت 2