آیت 30
 

یَوۡمَ نَقُوۡلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امۡتَلَاۡتِ وَ تَقُوۡلُ ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ﴿۳۰﴾

۳۰۔ جس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے: کیا تو بھر گئی ہے؟ اور وہ کہے گی: کیا مزید ہے؟

تفسیر آیات

ایک تفسیر یہ ہے کہ کیا تو بھر گئی ہے کے جواب میں جہنم کہے گی: کیا مزید ہے؟ مجھ میں مزید گنجائش نہیں ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جہنم کی طرف سے مزید جہنمیوں کا مطالبہ ہو گا۔ جہنم کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کو پر کیا جائے گا: سورہ سجدہ آیت ۱۳۔

جہنم کے ساتھ سوال و جواب ممکن ہے زبان حال کے طور پر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ عالم آخرت میں ہر چیز شعور رکھتی ہو۔

ممکن ہے یہ سوال تمام جہنمیوں کو جہنم میں ڈالنے سے پہلے ہوا ہو۔ لہٰذا اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ کا مطلب یہ بنتا ابھی جہنم پر نہیں ہوئی جبکہ اللہ کا وعدہ ہے: لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ۔

اس جگہ وہ روایت قابل تعجب ہے جو صحیح بخاری، صحیح مسلم ، ترمذی ، نسائی اور احمد بن حنبل نے انس سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا تزال جہنم یلقی فیھا و تقول ھل من مزید حتی یضع رب العزۃ قدمہ۔۔۔ الی آخر

جہنم میں لوگوں کو پھینکا جائے گا۔ جہنم ھل من مزید کہے جائے گی یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنا قدم جہنم میں رکھے گا ۔۔۔۔

یہ عقل سلیم اور صریح قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن فرماتا ہے: لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ کہ جہنم کو جنوں اور انسانوں سے پر کروں گا اور یہ روایت کہتی ہے اللہ اپنے قدم (پاؤں) سے پُر کرے گا۔ دوسری روایت میں رِجْل کا لفظ موجود ہے یعنی اللہ پاؤں رکھے گا۔ اس قسم کا تصور شان الٰہی میں نہایت گستاخی اور اسلامی تصور توحید کے سراسر منافی ہے۔ اعاذنا اللہ من ذلک۔


آیت 30