آیت 2
 

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۙ کَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ﴿۲﴾

۲۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال بجا لائے اور جو کچھ محمدؐ پر نازل کیا گیا ہے اس پر بھی ایمان لائے اور ان کے رب کی طرف سے حق بھی یہی ہے، اللہ نے ان کے گناہ ان سے دور کر دئیے اور ان کے حال کی اصلاح فرمائی۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: کفار جب اپنے کفر پر پوری طرح قائم رہتے ہیں تو اسلامی اصولوں کے منکر ہوتے ہیں اور ایمان کی رہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔

ان کے مقابلے میں مؤمنوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اسلام کے عناصر اپنے اندر پیدا کریں۔ پہلا عنصر ایمان، دوسرا عنصر عمل صالح اور تیسرا عنصر جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے ان سب پر ایمان لائیں۔

لوگوں کے لیے اجمالی ایمان آسان ہوتا ہے۔ یعنی ایمان باصول اسلام اور عمل صالح لیکن جب تفصیلی ایمان کی نوبت آتی ہے تو قدم پھسل جاتے ہیں۔ تفصیلی ایمان بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان ہے۔ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہو اس پر ایمان لے آنا۔ بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ میں قرآن کے ساتھ سنت بھی ہے۔ سنت پر ایمان کا تعلق زندگی میں پیش آنے والے ہر مسئلہ کے ساتھ ہے۔

چنانچہ سورۃ الحشر میں جنگی غنائم اور کفار سے بغیر جنگ کے ہاتھ آنے والے اموال کی تقسیم کے حکم کے بعد فرمایا:

وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا۔۔۔۔ (۵۹ حشر:۷)

اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔

اس جگہ رسولؐ کے فرمان کی تعمیل کی تاکید سے یہ عندیہ ملتا ہے زندگی میں پیش آنے والے مالی، سیاسی مسائل میں بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا آسان کام نہیں تھا۔ اسی لیے لوگوں کے لیے قرآن پر ایمان لے آنا تو آسان تھا لیکن سنت پر عمل کرنا بہت دشوار ہوتا رہا ہے۔ کبھی صرف قرآن کافی ہے کا نعرہ بلند کیا گیا اور کبھی سنت کی تدوین کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔

سفیان ثوری بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ پر ایمان کی تشریح میں کہتے ہیں:

لم یخالفوہ فی شیء۔ ( تفسیر قرطبی )

کسی چیز میں بھی رسول اللہ ؐکے خلاف نہ جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں منکر قرآن نہیں پائے جاتے منکر حدیث موجود ہیں اور قرآن کی تحریف ممکن نہیں رہی، حدیث کی لفظی اور معنوی تحریف کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

۲۔ وَّہُوَالْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ: جو کچھ محمدؐ پر نازل ہوا ہے۔ وہ ان کے رب کی طرف سے برحق ہے اور محمد جو بیان کریں گے وہ اپنی طرف سے نہ ہو گا:

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ﴿﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ﴿﴾ (۵۳ نجم: ۳۔۴)

وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔

اسی وجہ سے اطاعت رسول اطاعت خدا ثابت ہوئی ہے:

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۸۰)

جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

چونکہ بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا نہایت مشکل مسئلہ تھا اس لیے وَ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ کی تاکید بیان فرمائی۔

۳۔ کَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ: ان عناصر کی تکمیل کی صورت میں یہ کامل ایمان، ان کے گناہوں کا کفارہ ہو گا:

اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ۔۔۔۔ (۱۱ ھود:۱۱۴)

نیکیاں بے شک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔

۴۔ وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ: البال حالت کو کہتے ہیں۔ ایمان کی تکمیل کی صورت میں اللہ ان کے احوال درست کر دے گا۔ چنانچہ ایمان کی تکمیل کی صورت میں اسے دنیا میں کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی اور آخرت میں بھی اس کا حال بہتر ہو گا۔ اگر البال کو قلب کے معنوں میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اس کی قلبی اور نفسیاتی حالت کی اصلاح ہو گی۔ ایمان سے قلب میں اطمینان اور ضمیر میں سکون آجاتا ہے۔ دل کی اصلاح ہو گی سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ جو بیماریاں غیر مومن کے دلوں میں موجود ہوتی ہیں، مومن کا دل ان تمام بیماریوں سے پاک ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ تمام مثبت اثرات تفصیلی ایمان پر مترتب ہوتے ہیں۔ اجمالی ایمان پر صرف ظاہری اثرات مترتب ہوتے ہیں۔


آیت 2