آیت 35
 

فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ یَوۡمَ یَرَوۡنَ مَا یُوۡعَدُوۡنَ ۙ لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَۃً مِّنۡ نَّہَارٍ ؕ بَلٰغٌ ۚ فَہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿٪۳۵﴾

۳۵۔ پس (اے رسول) صبر کیجیے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے (طلب عذاب میں) جلدی نہ کیجیے، جس دن یہ اس عذاب کو دیکھیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں محسوس ہو گا گویا (دنیا میں دن کی) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے، (یہ ایک) پیغام ہے، پس وہی لوگ ہلاکت میں جائیں گے جو فاسق ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ: اے رسول! اولوا العزم رسولوں کی طرح صبر کرو۔ اُولُوا الۡعَزۡمِ کے لفظی معنی ہیں صاحبان عزم۔ عزم ارادے کو کہتے ہیں:

فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۵۹)

پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں۔

اور سورہ شوری میں صبر اور درگزر کو عزم کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ عزم و ارادہ اگر پختہ ہو اور عزم میں کسی قسم کاتزلزل نہ ہو تو اس کے اثرات عام حالات میں بھی حیرت انگیز ہوتے ہیں اور اگر اس عزم کا تعلق ارادۂ الٰہی سے ہو تو اس عزم کی طاقت بھی الٰہی ہو جاتی ہے۔ اس لیے صبر کے لیے عزم درکار ہوتا ہے۔ عزم و ارادے میں کمزوری رکھنے والا صبر نہیں کر سکتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صبر کے حکم کے ساتھ صاحب عزم ہونے کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے۔

عزم سے مراد عزیمت اور شریعت ہے۔ ہمارے نزدیک صاحبان شریعت انبیاء اولوالعزم ہیں اور وہ پانچ انبیاء علیہم السلام ہیں۔ حضرات نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور خاتم الانبیاء صلوات اللہ علیہم اجمعین۔ چنانچہ فرمایا:

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی۔۔۔۔ (۴۲ شوری: ۱۳)

اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا۔

اس آیت میں مذکور انبیاء علیہم السلام کو صاحب شریعت بتایا ہے اور ائمہ اہل البیت علیہم السلام کی طرف سے متعدد روایات سے بھی یہی ثابت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صبر کا حکم ہے کہ اولو العزمی صبر کا مظاہرہ کریں۔ اگرچہ آپؐ نے فرمایا:

ما اوذی نبی مثل ما اوزیتُ۔۔۔۔ (بحار ۳۹: ۵۵)

کسی نبی کو اتنی اذیت نہیں دی گئی جتنی مجھے اذیت دی گئی ہے۔

یتیم پیدا ہوئے۔ بچپن میں ماں کا سایہ اٹھ گیا۔ باپ ماں کا سایہ نہیں، اب وفادار بیوی اور عظیم محافظ چاچا سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ ہر طرف سے حملہ، تمسخر اور ایذا رسانی ہے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پتھر مارتے ہیں، دونوں پائے مبارک سے خون جاری ہو جاتا ہے مگر صبر و استقامت کے کوہ گراں فرماتے ہیں:

اللّٰھم اھد قومی فانہم لا یعلمون۔۔ (بحار ۱۱: ۲۹۸)

اے اللہ! میری قوم کی ہدایت فرما یہ جانتے نہیں ہیں۔

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

یا عائشہ! ان الدنیا لا ینبغی لمحمد ولا لآل محمد یا عائشہ! ان اللّٰہ لم یرض من اولی العزم من الرسل الا الصبر علی مکروھھا۔ (تفسیر ابن کثیر ذیل آیت)

اے عائشہ! محمد اور آل محمد کے لیے دنیا شائستہ نہیں ہے۔ اے عائشہ! اللہ تعالیٰ رسولوں میں سے جو اولوالعزم ہیں ان سے دنیا کے مصائب پر صرف صبر پسند فرماتا ہے۔

۲۔ وَ لَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ: ان کے لیے طلب عذاب میں عجلت سے کام نہ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عذاب طلب نہیں کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے حالات سے دوچار تھے کہ عذاب الٰہی کے سوا اس قوم کا کوئی علاج نہ تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمان ہو گیا ہو گا کہ جس عذاب کا خوف دلایا جا رہا ہے، وہ آنے ہی والا ہو گا۔ فرمایا: یہ دنیا ایک مختصر سی زندگی ہے۔ دو دن اور صبر کریں۔

۳۔ یَوۡمَ یَرَوۡنَ مَا یُوۡعَدُوۡنَ: جس عذاب کا خوف دلایا جا رہا ہے اس عذاب کے آنے پر انہیں احساس ہو گا کہ عذاب کے آنے میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ اس دنیا کی پوری زندگی کو ایک دن کا حصہ شمار کریں گے۔

۴۔ لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَۃً مِّنۡ نَّہَارٍ: جب وہ پوری زندگی کو ایک دن کا ایک حصہ سمجھیں گے تو اس وقت یہ بات ان پر واضح ہو جائے گی کہ عذاب الٰہی آنے میں نہ کوئی دیر ہوئی، نہ قیامت کے آنے میں کوئی زیادہ وقت صرف ہوا۔

۵۔ بَلٰغٌ: یہ ایک تبلیغ، حق ہے جو اللہ کی طرف سے تمہارے لیے بیان کی گئی ہے۔

۶۔ فَہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ: اس تبلیغ، اتمام حجت اور حق کے واضح ہو چکنے کے بعد اگر ہلاکت کی طرف جاتے ہیں تو وہ صرف فاسق لوگ ہوں گے یعنی اللہ کے حکم کی تعمیل سے رو گردانی کرنے والے ہوں گے۔


آیت 35