آیات 4 - 6
 

فِیۡہَا یُفۡرَقُ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اس رات میں ہر حکیمانہ امر کی تفصیل وضع کی جاتی ہے۔

اَمۡرًا مِّنۡ عِنۡدِنَا ؕ اِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ ۚ﴿۵﴾

۵۔ ایسا امر جو ہمارے ہاں سے صادر ہوتا ہے (کیونکہ) ہمیں رسول بھیجنا مقصود تھا۔

رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ۙ﴿۶﴾

۶۔ (رسول کا بھیجنا) آپ کے رب کی طرف سے رحمت کے طور پر، وہ یقینا خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اس آیت سے اور سورۃ القدر کی آیت:

تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ (۹۷ قدر: ۴)

فرشتے اور روح اس شب میں اپنے رب کے اذن سے تمام (تعیین شدہ) حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔

سے معلوم ہوتا ہے ملائکہ اور روح اس رات اللہ کا حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔ ان آیات سے اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ملکوتی نظام میں ایک رات ایسی ہے جس میں سال بھر کے امور کے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ سال میں ایک بار لوگوں کے مقدرات کی تجدید فرماتا ہے۔ تقدیر کی تجدید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو فیصلے ہوتے ہیں: ایک فیصلہ اٹل لایتغیر ہوتا ہے جس کو سُنَّۃَ اللّٰہِ سے تعبیر فرمایا:

وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا (۳۳ احزاب: ۲۶)

اور اللہ کے دستور میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

دوسرا فیصلہ قابل تغیر ہے فرمایا:

یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ (۱۳رعد: ۳۹)

اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔

اگر اللہ کے حتمی فیصلے نہ ہوتے تو اس کائنات کی کسی چیز پر بھروسہ نہ آتا اور اگر کچھ فیصلوں میں لچک کی گنجائش نہ ہوتی تو انسان مجبور ہوتا اور اپنے اعمال و کردار کا اس پر کوئی اثر مترتب نہ ہوتا۔ اس سلسلے میں فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ۔۔۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۱۱)

اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔

حدیث میں ہے:

لا یرد القضاء الا الدعاء ولا یزید فی العمر الا البر۔ (ترمذی ۸: ۳۵۰)

اللہ کے فیصلے کو صرف دعا روک سکتی ہے اور نیکی ہی سے عمر لمبی ہوتی ہے۔

اور جب انسان کے اعمال اور کردار کے اس کی قسمت اور تقدیر پر اثرات مترتب ہوتے ہیں تو ان اثرات پر مشتمل ایک نئی تقدیر کی ترتیب کے لیے سال میں ایک شب کا تعین فرمایا۔ اپنی تقدیر سازی نہ ہو سکی تو ایک رات میں اپنی قسمت سنوار سکتا ہے۔

۲۔ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ: اس رات میں ہر حکیمانہ امر کی تفصیل و تقسیم ہو گی۔ اللہ کا ہر امر حکمت و مصلحت پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ کا کوئی امر حساب و کتاب کے بغیر صادر نہیں ہوتا۔

۳۔ اَمۡرًا مِّنۡ عِنۡدِنَا: یہ حکیمانہ امر ہمارے ہاں سے صادر ہونے والا ہے۔ کسی غیر اللہ سے ممکن نہیں کہ انسان کی ہدایت و سعادت سے متعلق کوئی امر صادر ہو جائے۔

۴۔ اِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ﴿﴾رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ: یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا ہے کہ انسان کی ہدایت و سعادت کے لیے انبیاء علیہم السلام بھیجے جائیں۔ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ حکیمانہ امر انسان کی ہدایت و سعادت سے متعلق ہے۔

۵۔ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ: وہ ضمیروں تک کی آواز کی سنتا ہے اور اپنی مخلوق کی خیر و سعادت کی ہر بات کا علم رکھتا ہے۔


آیات 4 - 6