آیت 11
 

فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ مِنَ الۡاَنۡعَامِ اَزۡوَاجًا ۚ یَذۡرَؤُکُمۡ فِیۡہِ ؕ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ﴿۱۱﴾

۱۱۔ (وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اسی نے خود تمہاری جنس سے تمہارے لیے ازواج بنائے اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے، اس طرح سے وہ تمہاری افزائش کرتا ہے، اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

تشریح کلمات

یَذۡرَؤُ:

( ذ ر ء ) الذرہ کے معنی ہیں اللہ نے جس چیز کا ارادہ کیا اسے ظاہر کر دیا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: اللہ کی ربوبیت اور مدبریت پر ایک بار پھر استدلال ہے کہ تمہارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ مشرکین بھی اللہ کے خالق و موجد ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔ خالقیت سے ربوبیت اور مدبریت پر استدلال ہے چونکہ خالقیت اور مدبریت ناقابل تفریق ہیں۔

۲۔ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا: تمہارے لیے خود تمہاری جنس بشر سے زوج پیدا کرنے سے تو زندگی کا قافلہ رواں دواں ہے۔ یہ تدبیری تخلیق کس کا کارنامہ ہے؟

۳۔ وَّ مِنَ الۡاَنۡعَامِ اَزۡوَاجًا: چوپاؤں میں جوڑے بنا کر تمہارے لیے مسخر حیوانات کی نسلی افزائش کی تدبیری تخلیق کس کا عمل ہے؟

۴۔ یَذۡرَؤُکُمۡ فِیۡہِ: اس تزویج میں تمہاری افزائش کرنے والا ہی تمہارا رب ہے۔ فِیۡہِ کی ضمیر تزویج کی طرف ہے جو اَزۡوَاجًا کی تعبیر میں ضمناً مذکور ہے۔

۵۔ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ: اللہ کی کوئی مثل نہیں ہے۔ اللہ اپنی مخلوقات میں سے کسی چیز کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتا۔ نہ اس کا وجود باقی موجودات کے وجود کی طرح ہے، نہ اس کی حیات باقی زندہ موجودات کی حیات کی طرح ہے، نہ اس کی قدرت باقی قدرت کی طرح ہے:

قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۱۶)

کہدیجیے: ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے۔

لہٰذا وہ اپنی مخلوق کی مثل نہیں ہو سکتا۔

علی بن مہزیار کہتے ہیں:

میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو لکھا: میں ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں جو اللہ کے جسم ہونے کا قائل ہے تو جواب میں لکھا:

لَا تُصَلُّوا خَلْفَہُمْ وَلَا تُعْطُوھُمْ مِنَ الزَّکَاۃِ وَ ابْرَائُ وا مِنْہُمْ بَرِیئَ اللہُ مِنْہُمْ۔ ( وسائل الشیعۃ ۸: ۳۱۲۔ بحار الانوار ۳: ۲۹۲)

ان کے پیچھے نماز نہ پڑھو، انہیں زکوٰۃ نہ دو، ان سے بیزاری اختیار کرو، اللہ ان سے بیزار ہے۔

جمال الدین قاسمی اپنی تفسیر محاسن التاویل میں لکھتے ہیں:

ذہبی نے کہا ہے کہ متکلمین میں سے متاخرین نے کہا ہے: اللہ تعالیٰ نہ آسمانوں میں ہے، نہ زمین میں، نہ عرش پر، نہ داخل عالم، نہ خارج عالم، نہ اپنی مخلوق سے جدا ہے، نہ متصل کیونکہ یہ سب جسم کے اوصاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ جسم سے منزہ ہے۔

قاسمی کہتے ہیں: ان کے جواب میں اہل السنۃ والاثر (اہل حدیث) یہ کہتے ہیں:

ہم اس بات میں نہیں پڑتے۔ ہم وہی بات کرتے ہیں جو نصوص میں ہے۔ آپ لوگوں کی باتیں ایک معدوم کے اوصاف ہو سکتے ہیں۔

اس مکتب فکر کا عقیدہ ہے کہ جو صفات قرآن و سنت میں وارد ہوئی ہیں ہم انہیں حقیقی معنی میں لیتے ہیں جیسے اللہ کے لیے ہاتھ، چہرہ ہے لیکن کیفیت کی نفی کرتے اور کہتے ہیں: اللہ کا ہاتھ ہے، کیفیت معلوم نہیں ہے کہ وہ کس قسم کا ہاتھ ہے۔ اللہ کا چہرہ ہے۔ کیفیت معلوم نہیں ہے۔ اللہ عرش پر ہے۔ کیفیت معلوم نہیں ہے۔ وہ صفات سلبیہ کو معدوم کے اوصاف قرار دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے بعض نے یہ تشبیہ بھی دی ہے کہ اگر کوئی کہے: ہمارے گھر میں کھجور کا درخت ہے۔ کہا: کیا اس کی ٹہنی ہے؟ کہا نہیں ہے۔ کیا اس پر پھل ہے؟ کہا نہیں ہے؟ کیا اس کا تنا ہے؟ کہا نہیں ہے۔ پھر کہو تمہارے گھر میں کھجور کا کوئی درخت نہیں ہے۔ اس طرح ہے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں: نہ اللہ کسی زمان میں، نہ کسی مکان میں ہے۔۔۔ وغیرہ۔ پھر معطلہ کا بھی ذکر آتا ہے جو اللہ کے سمیع و بصیر ہونے کے بھی منکر ہیں۔ جب کہ یہ لوگ بھی کیفیت کی نفی کرتے ہیں۔ جو بات اس نفی کے لیے لازم آتی ہے وہی دوسرے نظریات پر لازم آتی ہے۔

یہی سوال اس مکتب کے نظریے پر بھی آتا ہے کہ آپ کہتے ہیں اللہ کا چہرہ ہے۔ کیفیت معلوم نہیں ہے۔ کہا جائے کیا اس چہرے کی ناک ہے؟کہا معلوم نہیں ہے۔ کیا اس چہرے پر دو آنکھیں ہیں؟ کہا معلوم نہیں ہے۔ کیا اس چہرے پر گوشت، کھال، رگیں، اعصاب ہیں؟ کہا معلوم نہیں۔ پھر کہو اس چہرے کے وجود کا علم نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں: تم اس چہرے کو انسانی چہرہ جیسا سمجھ لیتے ہو پھر اس کی نفی کرتے ہو جب کہ ہم انسانی چہرہ نہیں بلکہ کہتے ہیں چہرہ ہے لیکن دوسرے چہروں کی طرح نہیں ہے۔

امامیہ اپنا عقیدہ اپنے امام مولائے متقیان علی علیہ السلام سے اخذ کرتے ہیں جو ایک روایت میں فرماتے ہیں:

کَائِنْ لَا عَنْ حَدَثٍ مَوْجُودٌ لَا عَنْ عَدَمَ مَعَ کُلِّ شَیْئٍ لَا بِمُقُارَنَۃٍ وَ غَیْرُ کَلِّ شَیْئٍ لَا بِمُزَایَلَۃٍ۔۔۔۔ ( نہج البلاغۃ خ۱)

وہ ہے، ہوا نہیں۔ موجود ہے مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا۔ وہ ہر شے کے ساتھ ہے، نہ جسمانی اتصال کی طرح۔وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے، نہ جسمانی دوری کے طور پر۔

دوسری جگہ فرمایا:

وَ مَنْ قَالَ عَلَامَ فَقَدْ اَخْلَی مِنْہُ وَ مَنْ قَالَ فِیمَ فَقَدْ ضَمَّنَہُ۔۔۔۔ ( نہج البلاغۃ خ۱)

جس نے یہ کہا وہ کس چیز پر ہے، اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں۔ جس نے یہ کہا وہ کس چیز میں ہے اس نے اسے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا۔


آیت 11