آیات 5 - 6
 

تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡ فَوۡقِہِنَّ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۵﴾

۵۔ قریب ہے کہ آسمان ان کے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اہل زمین کے لیے استغفار کرتے ہیں، آگاہ رہو! اللہ ہی بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہُ حَفِیۡظٌ عَلَیۡہِمۡ ۫ۖ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ﴿۶﴾

۶۔ اور جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو سرپرست بنایا ہے اللہ ہی ان (کے اعمال) پر نگہبان ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ: اس آیت کی دو تفسیریں ہیں:

پہلی تفسیر یہ ہے کہ وحی کو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب تحمل کر سکتا ہے، ضمیر عالم اس کا متحمل نہیں ہے۔ اگر آسمانوں پر یہ وحی نازل ہو تو وہ پھٹ پڑیں۔ جیسے فرمایا:

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ۔۔۔۔۔ (۵۹ حشر: ۲۱)

اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے اللہ کے خوف سے جھک کر پاش پاش ہوتا ضرور دیکھتے۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ شرک کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی شان میں انتہائی گستاخی ہے۔ اس قدر سنگین گستاخی ہے کہ کائنات کا ضمیر اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ جیسے سورہ مریم ۹۰۔۹۱ میں فرمایا:

تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿﴾اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا ﴿﴾

قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے فرزند (کی موجودگی) کا الزام لگایا ہے۔

سیاق آیت کے اعتبار سے پہلی تفسیر قرین واقع معلوم ہوتی ہے۔ البتہ کسی دلیل کے موجود ہونے کی صورت میں سیاق کا اعتبار نہیں کیا جاتا چونکہ قرآن کا طرز کلام یہی ہے کہ کبھی ایک آیت میں متعدد موضوعات سمو دیے جاتے ہیں۔

۲۔ مِنۡ فَوۡقِہِنَّ : یعنی من فوق السماوات ۔ ممکن ہے آسمان ان کے اوپر سے پھٹ جائیں۔ معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ آسمان پھٹ سکتے ہیں۔ مزید سنگینی یہ ہے کہ آسمانوں کی بالائی دنیا میں شکست و ریخت آ سکتی ہے۔ ممکن ہے مسئلہ کی سنگینی بیان کرنے کے لیے یہ تعبیر اختیار فرمائی ہو کہ زمین پھٹنے سے آسمانوں کا پھٹنا زیادہ سنگین اور آسمانوں، بالائی ملکوت میں اس کے اثرات پیدا ہونا مزید سنگین ہے۔ والعلم عند اللہ۔

۳۔ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ: فرشتے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کرتے اور اسی ایک معبود کو لائق حمد و ثنا کہتے ہیں۔

۴۔ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ: اور اہل ارض کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کے لفظی اطلاق کو سامنے رکھ کر فرمایا: تمام اہل ارض خواہ مسلم ہوں یا مشرک، سب کے لیے مغفرت طلب کرتے۔

صاحب المیزان مغفرت سے سبب مغفرت یعنی ایمان مراد لیتے ہیں لیکن اگرچہ یہاں لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ مطلق ہے لیکن سورہ مومن : ۷ میں بھی فرشتوں کی طرف سے مغفرت کا ذکر ہے۔ اس میں مومنین کی قید ہے وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اور قاعدۃً مطلق، مقید پر محمول ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حاملین عرش اور دیگر فرشتوں کے استغفار میں فرق ہے۔

۵۔ اَلَاۤ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ: اللہ توبہ کرنے اور دائرۂ ایمان میں داخل ہونے والوں کے گزشتہ تمام شرک وغیرہ کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔

۶۔ وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ: جو لوگ غیر اللہ کو اپنا کارساز بناتے ہیں ان کے اس عقیدہ و عمل کو اللہ محفوظ اور ثبت کرتا ہے جس کا انہیں قیامت کے دن سامنا کرنا ہو گا۔

۷۔ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ: آپ کو ان کے عدم ایمان کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ آپ کی تکلیف ان تک پیغام پہنچانا ہے۔ ان کے ایمان لانے کی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔


آیات 5 - 6