آیت 51
 

وَ اِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَی الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِہٖ ۚ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِیۡضٍ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور جب ہم انسان کو نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا اور اکڑ جاتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

تشریح کلمات

وَ نَاٰ بِجَانِبِہٖ:

( ن و ء ) نَاٰ بِجَانِبِہٖ کے معنی پہلو پھیر لینے کے ہیں۔ نَأی بروزن نَعیٰ اعراض کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

انسان کے لیے جب نعمتوں کی فراوانی ہو جاتی ہے تو اس کی سوچ اور حسن و قبح کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿﴾اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿﴾ (۹۶ علق۶: ۷)

انسان تو یقینا سرکشی کرتا ہے۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿ۙ﴾اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا ﴿ۙ﴾وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا ﴿ۙ﴾اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ﴾ (۷۰ معارج: ۱۹ تا۲۲)

انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے آسائش حاصل ہو جاتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، سوائے نماز گزاروں کے۔

مختلف حالات میں چلنے والی ہوا کے ساتھ ادھر سے ادھر ہو جاتا ہے۔ اپنا موقف نہیں رکھتا بلکہ ہر بدلتے حالات کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ البتہ نمازی مضبوط چٹان کی طرح اپنا ایک موقف رکھتا ہے۔ وہ ہر حالت میں ایک موقف رکھتا ہے۔

۲۔ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِیۡضٍ: اور جب وہ کسی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس سے تکبر و غرور کے اسباب، نعمتوں کی فراوانی ختم ہو جاتی ہے اور دولت کے پردے ہٹ جاتے ہیں تو اس وقت اسے اپنی حقیقت، مجبوری اور بے بسی نظر آتی ہے۔ اب اس کی اکڑ ختم، غرور و تکبر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ نہایت عاجزی سے طویل و عریض دعائیں کرنے لگ جاتا ہے۔


آیت 51