آیت 40
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخۡفَوۡنَ عَلَیۡنَا ؕ اَفَمَنۡ یُّلۡقٰی فِی النَّارِ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ یَّاۡتِیۡۤ اٰمِنًا یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِعۡمَلُوۡا مَا شِئۡتُمۡ ۙ اِنَّہٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۴۰﴾

۴۰۔ جو لوگ ہماری آیات میں ہیرا پھیری کرتے ہیں وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں کیا وہ شخص جو جہنم میں ڈالا جائے بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن کے ساتھ حاضر ہو گا؟ تم جو چاہو کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے یقینا خوب دیکھنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان آیات کا انکار کرتے ہیں جو روز ان کے مشاہدے میں آتی ہیں، وہ آیات قرآنی کے بھی منکر ہوتے ہیں جو انہیں سنائی جاتی ہیں۔ پھر وہ آیات تکوینی کے منکر ہونے کے ساتھ آیات قرآنی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خود ساختہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے یہ جرائم اللہ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

۲۔ اَفَمَنۡ یُّلۡقٰی فِی النَّارِ: پھر سوالیہ انداز میں ان دو گروہوں کا انجام بتایا۔ ایک گروہ، جو آیات الٰہی کا انکار کرتا ہے اسے آتش جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

۳۔ اَمۡ مَّنۡ یَّاۡتِیۡۤ اٰمِنًا: اور دوسرا گروہ امن و سلامتی میں ہو گا۔ اس سے اشارہ ملتا ہے اہل ایمان، خاص کر استقامت دکھانے والے قیامت کے دن امن و سلامتی میں ہوں گے۔

۴۔ اِعۡمَلُوۡا مَا شِئۡتُمۡ: تم جو چاہو کرو۔ یہ اس صورت کا بیان ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور جسے اللہ اس کے حال پر چھوڑ دے اس سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں ہے۔

۵۔ اِنَّہٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ: یہ انتہائی صورت کی بے نصیبی کی خبر ہے۔ یہ کہنا تم جو چاہو کرو، تمہارے جرائم ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔

فضیلت:ابن عباس راوی ہیں۔ اس آیت میں اَفَمَنۡ یُّلۡقٰی فِی النَّارِ سے ولید بن مغیرہ مراد لیا گیا ہے اور اَمۡ مَّنۡ یَّاۡتِیۡۤ اٰمِنًا یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ سے علی بن ابی طالب علیہا السلام مراد ہیں۔( شواھد التنزیل ذیل آیت)


آیت 40