آیت 30
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ جو کہتے ہیں: ہمارا رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) نہ خوف کرو نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ جن لوگوں نے اللہ کو اپنا رب تسلیم کر لینے کے بعد اس پر استقامت دکھائی، ثابت قدم رہے، ان میں انحراف نہیں آیا، ان کے لیے چند ایک خصوصیات حاصل ہوں گی۔

استقامت کیا ہے؟ اس سلسلے میں چند روایات موجود ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ایک خطبے میں فرمایا:

وَ قَدْ قُلْتُمْ رَبُّنَا اللہُ فَاسْتَقِیمُوا عَلَی کِتَابِہِ وَ عَلَی مِنْھَاجِ اَمْرِہِ وَ عَلَی الطَّرِیقَۃِ الصَّالِحَۃِ مِنْ عِبَادَتِہِ ثُمَّ لَا تَمْرُقُوا مِنْھَا وَ لَا تَبْتَدِعُوا فِیھَا وَ لَا تُخَالِفُوا عَنْھَا۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خ ۱۷۶)

اب تمہارا قول تو یہ ہے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، تو اب اس کی کتاب اور اس کی شریعت کی راہ اور اس کی عبادت کے نیک طریقے پر جمے رہو اور پھر اس سے نکل نہ بھاگو اور نہ اس میں بدعتیں پیدا کرو اور نہ اس کے خلاف چلو۔

دراصل اس آیت میں تادم مرگ ایمان پر قائم رہنے والوں کا ذکر ہے۔

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث میں آیا ہے:

فقد قالھا اناس ثم کفر اکثرھم۔ فمن قالھا حتی یموت فھو ممن استقام علیہا۔ ( تفسیر نور الثقلین ۴: ۵۴۷)

ربنا اللّٰہ بہت سے لوگوں نے کہا ہے۔ پھر اکثر کافر ہو گئے۔ جو رَبُّنَا اللّٰہُ تا دم مرگ کہتا رہے گا وہ اس پر استقامت رکھنے والا ہے۔

اللہ کی ربوبیت کا مطلب نفی شرک ہے۔ نفی شرک کامطلب تکوینی و تشریع میں اللہ کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرنا ہے۔

استقامت کی شرط سے مرتد، بدعتی اور منافق خارج ہو جاتے ہیں اور ساتھ وہ لوگ بھی نکل گئے جنہیں حدیث ما احدثوا بعدک کے مطابق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد انحراف اور تبدیلی لانے والے کہا ہے۔

۲۔ تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ: ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ یہ فرشتے ایسے لوگوں پر حالت نزع میں نازل ہوں گے اور جنت کی بشارت دیں گے۔ جیسے سورہ نحل آیت ۳۲ میں ہے:

الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿﴾

جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

چنانچہ مروی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے حارث ہمدانی سے فرمایا:

یا حار ھمدان من یمت یرنی من مؤمن او منافق قبلا۔ ( بحار ۶: ۱۸۱)

اے حارث ہمدانی! جو بھی مرنے والا ہے وہ مجھے دیکھتا ہے، خواہ وہ مؤمن رہ چکا ہو یا کافر۔


آیت 30