آیت 3
 

کِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ ایسی کتاب جس کی آیات کھول کر بیان کی گئی ہیں، ایک عربی(زبان کا) قرآن علم رکھنے والوں کے لیے ،

تفسیر آیات

۱۔ کِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ: قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات اور مضامین میں کسی قسم کی پیچیدگی اور ابہام نہیں ہے۔ دلائل واضح ،براہین غیر مبہم ہیں۔ کسی آیت کا دوسری آیت سے اختلاط نہیں ہے، نہ ایک مضمون دوسرے مضمون سے متصادم ہے کہ اسے اپنا دستور حیات بنانے کے لیے کوئی مشکل پیش آئے۔

قرآنی اسلوب بیان میں وضاحت کو بنیاد بنایا گیا ہے تاکہ اس میں غور کرنے والے اس سے روشنی حاصل کر سکیں اور فہم سلیم رکھنے والے اس کے ملکوتی مفاہیم سے فیض لے سکیں۔

۲۔ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا: اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کر کے جس قوم کو اس مشن کا ہر اول دستہ قرر دیا گیا اس کے لیے کوئی عذر نہیں چھوڑا۔ چنانچہ عربوں کے سادہ فہم لوگ بھی اس کلام کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔

چنانچہ اصمعی نے آیۂ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا۔۔۔۔ ( ۵ مائدہ: ۳۸) کے ذیل میں جو واقعہ لکھا ہے وہ بہترین مثال ہے۔ لکھتے ہیں:

میں نے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے آیت کے آخر میں غفور رحیم پڑھا تو ایک عرب بدو نے کہا: یہ کس کا کلام ہے؟ میں نے کہا: اللہ کا کلام ہے۔ بولا: پھر پڑھو۔ میں نے پھر غفور رحیم پڑھا۔ پھر میں متوجہ ہوا کہ غلط پڑھ رہا ہوں۔ جب میں نے پڑھا واللّٰہ عزیز حکیم تو بدو نے کہا: اب درست پڑھا ہے۔ میں نے پوچھا: تم نے کیسے سمجھا؟ کہا: اللہ عزیز و حکیم ہے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اگر غفور رحیم کا ذکر آتا تو ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ دیتا۔

ایک بدو بھی اپنے ذوق سلیم سے اس عربی سلیم سے اچھی طرح مطالب سمجھ لیتا ہے۔

۳۔ لِّقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ: یہ قرآن ایسی قوم کے لیے ہے جو اس کے معانی کا علم رکھتی ہے خواہ عرب ہو یا غیر عرب چونکہ قرآن کے معانی کا علم حاصل کرنے کے لیے عرب ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ اس صورت میں ہے اگر ہم یَّعۡلَمُوۡنَ کے بعد معانیہ کو مفعول تصور کرتے ہیں۔ اگر ہم یَّعۡلَمُوۡنَ کو متروک المفعول تصور کرتے ہیں تو آیت کا یہ مطلب بنتا ہے: یہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہے جو علم رکھتے ہیں۔ یعنی قرآن سے استفادہ وہی لوگ کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ قرآن کی توقعات علم والوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔


آیت 3