آیات 47 - 48
 

وَ اِذۡ یَتَحَآجُّوۡنَ فِی النَّارِ فَیَقُوۡلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا اِنَّا کُنَّا لَکُمۡ تَبَعًا فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّغۡنُوۡنَ عَنَّا نَصِیۡبًا مِّنَ النَّارِ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور جب وہ جہنم میں جھگڑیں گے تو کمزور درجے کے لوگ بڑا بننے والوں سے کہیں گے: ہم تو تمہارے تابع تھے، تو کیا تم ہم سے آتش کا کچھ حصہ دور کر سکتے ہو؟

قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا اِنَّا کُلٌّ فِیۡہَاۤ ۙ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ حَکَمَ بَیۡنَ الۡعِبَادِ﴿۴۸﴾

۴۸۔ بڑا بننے والے کہیں گے: ہم سب اس (آتش) میں ہیں، اللہ تو بندوں کے درمیان یقینا فیصلہ کر چکا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذۡ یَتَحَآجُّوۡنَ فِی النَّارِ: شکست خوردہ لوگ شکست کے بعد آپس میں لڑتے جھگڑے ہیں۔ اہل جہنم میں جھگڑے کا قرآن میں دیگر مقامات پر بھی ذکر ہوا ہے۔

۲۔ کمزور درجے کے لوگ ان بڑے لوگوں سے، جن کی وہ دنیا میں تابعداری کرتے رہے ہیں یہاں بھی توقعات کا اظہار کریں گے۔

۳۔ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّغۡنُوۡنَ: توقع یہ ظاہر کریں گے کہ کیا تم آتش کاکچھ حصہ ہم سے دور کر سکتے ہو؟ انہیں معلوم ہے کہ وہ نہیں بچا سکتے۔ شاید یہ بات صرف انہیں مزید خوار کرنے کے لیے کہہ رہے ہوں گے یا دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کہہ رہے ہوں گے یا ممکن ہے دنیا میں ان سرداروں کے آگے ہاتھ پھلانے کی عادت راسخ ہو گئی تھی اس کے تحت آخرت میں ان کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوں۔

۴۔ قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا: سرداروں کی طرف سے جواب ملے گا: جس جہنم میں تم ہو اس میں ہم بھی ہیں۔ ہم اگر جہنم سے باہر ہوتے تو امکان کا تصور ہے کہ ہم تمہارے لیے کچھ کر سکیں گے مگر قیدی دوسرے قیدی کو کیسے چھڑا سکتا ہے۔

۵۔ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ حَکَمَ: جہنم میں آنے کی نوبت اللہ کے فیصلے کے مطابق آئی ہے۔ اللہ کے فیصلے کو کون ٹال سکتا ہے۔


آیات 47 - 48