آیت 11
 

قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ﴿۱۱﴾

۱۱۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی ہے،اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا نکلنے کی کوئی راہ ہے؟

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ: کفار اس پکار کے جواب میں کہیں گے: دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی کے بعد تو ہم حقیقت کو سمجھ گئے ہیں۔ اب اعتراف گناہ کے مرحلے پر آ گئے ہیں۔

بعض کے نزدیک پہلی موت وہ ہے جو دنیا میں آتی ہے۔ پھر برزخی زندگی پہلا احیاء ہے، پھر برزخی زندگی کو دوسری موت دی جاتی ہے۔ پھر قیامت کی زندگی دوسرا احیاء ہے۔

بعض کے نزدیک پہلی موت وہ ہے جو اس زندگی سے پہلے تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۸)

اللہ کے بارے میں تم کس طرح کفر اختیار کرتے ہو؟ حالانکہ تم بے جان تھے اللہ نے تمہیںحیات دی۔

اس آیت کے مطابق پہلی زندگی دنیوی زندگی ہے۔ دوسری موت وہ ہے جو دنیوی زندگی کا خاتمہ کرے اور دوسری حیات قیامت کی زندگی ہے۔ یہی نظریہ ہمارے نزدیک قرین واقع ہے۔

جب ان کافروں کو دوسری بار زندہ کیا جائے گا تو پردے ہٹ چکے ہوں گے۔ حقائق سامنے آ جائیں گے تو اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔

۲۔ فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ: اس ہولناک عذاب کا منظر دیکھ کر مایوسانہ استفہامیہ جملہ کہیں گے: کیا اس عذاب سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ خود انہیں معلوم ہو چکا ہو گا کوئی راستہ نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ مشاہدۂ عذاب کے بعد آرزوئے نجات ہر کافر کرے گا۔


آیت 11