آیت 20
 

وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ شہر کے دور ترین گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، بولا: اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ شہر کے دور ترین گوشے کا ذکر اور یہ فرمانا کہ وہ دوڑتا ہوا آیا اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہے کہ یہ شخص ایمان و اخلاص کے کس درجے پر فائز تھا۔ یہی درجہ مؤمن آل فرعون کا بھی تھا۔ وہ بھی شہر کے دور ترین گوشے سے موسیٰ علیہ السلام کو بچانے کے لیے دوڑتا ہوا آیا: وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی۔۔۔۔ ( ۲۸ قصص: ۲۰)۔ یہ مومن دوڑتے ہوئے اس لیے آیا ہو گا کہ لوگ ان مرسلین کو قتل کرنے والے تھے۔ اس مومن کے بارے میں زیادہ اختلاف ہے کہ ان کا نام کیا تھا۔ ان کے والد کا نام کیا تھا، ان کا پیشہ کیا تھا۔ روایات مضطرب ہونے کی وجہ سے ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔

فضائل: حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

سباق الامم ثلاثۃ لم یکفروا باللّٰہ طرفۃ عین۔ علی بن ابی طالب و صاحب آل یٰسٓ و مؤمن آل فرعون، فہم الصدیقون و علی افضلہم۔

امتوں میں سبقت لے جانے والے تین ہیں جنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی کفر اختیار نہیں کیا: علی ابن ابی طالب، صاحب آل یاسین اور مؤمن آل فرعون ۔ یہی صدیقین ہیں اور علی ان میں افضل ہیں۔

اس حدیث کو مختلف لفظوں میں ابن عباس اور ابو لیلی نے روایت کیا ہے۔ ابن عباس سے ایک روایت عمرو بن جمع کی وجہ سے ضعیف ہے جسے ثعلبی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ دیگر طرق سے عقیلی، طبرانی اور ابن مردویہ نے مجاہد سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو الکشاف ۴: ۱۰، تفسیر قرطبی ۱۶: ۲۰، روح المعانی ذیل آیت، الدرالمنثور ۵: ۲۱۲، کنز العمال ۱۱: ۱۰۱

دوسری حدیث ابوداؤد، ابو نعیم، ابن عساکر اور دیلمی نے ابو لیلی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الصدیقون ثلاثۃ، حبیب النجار مؤمن آل یاسین الذی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ و حزقیل مومن آل فرعون الذی قال اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ و علی بن ابی طالب وہو افضلہم۔ ( الدرالمنثور ۵: ۲۱۲)

صدیقین تین ہیں: حبیب النجار مومن آل یاسین جس نے کہا تھا: ’’ اے میری قوم ان مرسلین کی پیروی کرو۔‘‘ حزقیل مومن آل فرعون جس نے کہا تھا: ’’ کیا تم اس شخص کو قتل کرو گے اس کہنے پر کہ اللہ میرا رب ہے۔‘‘ اور علی بن ابی طالب جو ان سب میں افضل ہیں۔

ان ہستیوں کو فضیلت اس لیے ملی کہ انہوں نے راسخ ایمان کے ساتھ اپنے وقت کے رسول کو بچانے کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور علی علیہ السلام ان میں افضل ہیں کہ علی علیہ السلام نے اپنے وقت کے خاتم الرسل سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کئی بار اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

شب ہجرت اپنی جان نثاری کا ذکر خود بیان فرماتے ہیں:

وقیت بنفسی خیر من وطی الحصی

و من طاف بالبیت العتیق و بالحجر

میں نے اپنی جان دے کر اس ہستی کو بچایا جو روئے زمین پر چلنے والوں اور قدیم گھر اور حجر کا طواف کرنے والوں میں سب سے افضل ہے۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن پوری قوم میں تنہا ہونے کے باوجود حق کی آواز بلند کرتا ہے: رَجُلٌ۔۔۔۔

۲۔ مجاہد حمایت حق کے لیے سرعت کے ساتھ آگے آتا ہے: یَّسۡعٰی۔۔۔۔


آیت 20