آیت 11
 

وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمۡ اَزۡوَاجًا ؕ وَ مَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰی وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِہٖ ؕ وَ مَا یُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِہٖۤ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑا بنا دیا اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اللہ کے علم کے ساتھ اور نہ کسی زیادہ عمر والے کو عمر دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگر یہ کہ کتاب میں (ثبت) ہے، یقینا یہ سب کچھ اللہ کے لیے آسان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ: انسان کی تخلیق ارضی عناصر سے ہوئی ہے اور انسانی جسم میں موجود تمام عناصر ارضی ہیں۔

۲۔ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ: پھر اس خاک کو نطفہ بنا دیا: ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪۱۳﴾ (۲۳مومنون: ۱۳۔ (ترجمہ) پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بنا دیا۔) اس وقت تک کی معلومات کے مطابق نطفہ کی تشکیل دو نصف سیلز (cells) کی ترکیب سے ہوتی ہے- ایک نصف پدر اور دوسرا نصف مادر کی طرف سے فراہم ہوتا ہے۔ یعنی جرثومہ پدر اور تخم مادر۔ اس کی بحث سورۂ نساء ۱۱۹ میں کلوننگ کی بحث میں ہو چکی ہے۔

۳۔ ثُمَّ جَعَلَکُمۡ اَزۡوَاجًا: پھر تمہیں جوڑا بنا دیا۔ بعض نے ازواج سے اقسام مراد لیا ہے اور بعض مرد و زن مراد لیتے ہیں۔ دوسرا نظریہ زیادہ قرین واقع ہے۔

۴۔ وَ مَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰی وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِہٖ: اس جملے میں لفظ اُنۡثٰی میں انسان، حیوانات اور پرندے سب شامل ہیں۔ پرندوں کا انڈے دینا بچہ جننے کی طرح ہے۔ کسی ماں کے شکم میں جو حمل ٹھہرتا ہے اور بچہ جنتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔

ہم نے سورۂ رعد آیت ۸ کے ذیل میں لکھا ہے :

مرد کے ایک مکعب سینٹی میٹر نطفہ میں ایک سو ملین جرثومے ہوتے ہیں۔

یہ بات صرف اللہ جانتا ہے کہ ان سو ملین جرثوموں میں سے کون سا جرثومہ تخم مادر کے ساتھ جفت ہونے میں کامیاب ہونے والا ہے۔ اللہ ہی کے علم میں ہے آنے والا بچہ ان ایک سو ملین خاصیتوں میں سے کس خاصیت کا حامل ہے، چونکہ ان ایک سو ملین جرثوموں میں سے ہر ایک کی خاصیت جدا ہے۔ وہ کون سا محرک ہے جس کے تحت یہ جرثومے تخم مادر کی طرف دوڑتے ہیں اور اس میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان تو جانداروں کی کائنات میں ہر مادہ کو جاننے سے قاصر ہے۔ یہ کیسے جان سکتا ہے کہ ہر مادہ کیا اُٹھانے والی ہے۔

اگر رحم میں تخلیق کی تکمیل کے بعد انسان کو کچھ علم حاصل ہوا ہے تو یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ رحم کا حال تو انسان بھی جاننے لگا ہے۔

۵۔ وَ مَا یُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِہٖۤ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ: نہ کسی زیادہ عمر والے کو عمر دی جاتی ہے نہ ہی اس کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگر یہ کہ کتاب میں ثبت ہے۔

اسے تقدیر کہتے ہیں۔ واضح رہے تقدیر کا مطلب نظام اور قانون تکوینی ہے۔ اللہ کے ہاں ہر کام ایک نظام کے تحت انجام پاتا ہے۔ اگر تقدیر نہ ہوتی تو بدنظمی اور اندھیرنگری ہوتی۔ تقدیر کا مطلب جبر نہیں بلکہ تقدیر کا مطلب اللہ کی طرف سے تقنین و تنظیم ہے اور بندوں کی طرف سے اختیار و انتخاب ہے۔ اگر کسی کے لیے ایک تقدیر ہوتی تو جبر ہوتا جب کہ ایسا نہیں بلکہ ہر شخص کے بہت سے مقدرات میں سے ایک انتخاب کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام ایک ایسی دیوار سے ہٹ گئے جو گرنے والی تھی تو لوگوں نے کہا: کیا آپ تقدیر خدا سے بھاگ رہے ہیں؟ فرمایا:

افرّ من قدر اللّٰہ بقدر اللّٰہ۔۔۔۔ ( شرح نہج البلاغۃ ۸: ۲۹۸)

میں اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہا ہوں۔

البتہ اللہ کی کتاب، لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے کون سا راستہ اختیار کرنے والا ہے، کن حالات سے دوچار رہے گا اور کون سے علل و اسباب کے تحت کیا عمر پانے والا ہے۔

چنانچہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آیا ہے:

ان الصدقۃ و صلۃ الرحم تعمران الدیار و تزیدان فی الاعمار۔ (مکارم الاخلاق ص ۳۸۸)

صدقہ اور صلۂ رحم سے ملک آباد اور عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

مَنْ اَرَادَ البَقَائَ وَلَا بَقَائَ فَلیُبَاکِرِ الْغَدَائَ وَ لْیُجَوِّدِ الْحِذَائَ وَ لْیُخَفِّفِ الرِدَائَ وَ لْیُقِلَّ مُجَامَعَۃَ النِّسِآئِ قِیْلَ یَا رَسُولُ اللّٰہِ: وَمَا خِفَّۃُ الرِّدَائِ؟، قَالَ: قِلَّۃُ الدَّیْنِ۔ ( الفقیہ ۳: ۵۵۵۔ باب النوادر ، حدیث ۴۹۰۲)

جو بقا چاہتا ہے اگرچہ بقا ہے نہیں تو اسے چاہیے کہ کھانا سویرے کھائے، جوتے بہتر طریقے سے پہنے اور ہلکی چادر اوڑھے اور عورتوں کے پاس کم جائے۔ رسول اللہؐ سے سوال کیا گیا: یا رسول اللہؐ ! ہلکی چادر سے کیا مراد ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کم قرض لینا۔

۶۔ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ: کائنات ایک نظام و قانون کے تحت چلانا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مشکل اور آسان کا سوال وہاں آتا ہے جہاں کسی کام کو انجام دینے کے لیے علل و اسباب کو ذریعہ بنانا پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ علل و اسباب کے ذریعے نہیں اپنے ارادے کے ذریعے انجام دیتا ہے۔

اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۸۲﴾ ( یٓسٓ : ۸۲)

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ کہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے

اہم نکات

۱۔ انسان خاکی مخلوق ہے۔ انسان میں موجود تمام عناصر ارضی ہیں۔

۲۔ مخلوقات کے وجود میں آنے سے پہلے خدا ان سب کو جانتا ہے۔

۳۔ اللہ کے وضع کردہ فیزیکل قوانین کے تحت عمریں بڑھتی گھٹتی ہیں۔


آیت 11