آیت 2
 

مَا یَفۡتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنۡ رَّحۡمَۃٍ فَلَا مُمۡسِکَ لَہَا ۚ وَ مَا یُمۡسِکۡ ۙ فَلَا مُرۡسِلَ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۲﴾

۲۔ لوگوں کے لیے جو رحمت (کا دروازہ) اللہ کھولے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ مَا یَفۡتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنۡ رَّحۡمَۃٍ : اللہ تعالیٰ کے پاس ہی تمام رحمتوں کا خزانے موجود ہیں:

وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ۔۔۔ (۶۳ منافقون:۷)

حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے۔

دوسری آیت میں فرمایا:

وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُہٗ۔۔۔۔ (۱۵ حجر: ۲۱)

اور کوئی چیزایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔

اور یہ بات معقول اور ممکن بھی نہیں کہ اللہ سے ہٹ کر کسی کے پاس کوئی خزانہ موجود ہو۔ جب تمام خزانوں کا مالک صرف اللہ ہے تو ان خزانوں کا کھولنے والا بھی صرف اللہ ہی ہو سکتا ہے۔ مِنۡ رَّحۡمَۃٍ کی تعبیر میں اطلاق و شمول ہے جس میں تمام قسم کی رحمتیں شامل ہیں۔

۲۔ فَلَا مُمۡسِکَ لَہَا: اللہ کی طرف سے جب رحمتوں کا دروازہ کھول دیا جائے گا تو اللہ کے مقابلے میں کون آ سکتا ہے جو اسے بند کر دے۔

۳۔ وَ مَا یُمۡسِکۡ ۙ فَلَا مُرۡسِلَ لَہٗ: کون سی طاقت ہے جو اللہ کے مقابلے آ کر اس کے بند کیے ہوئے کو کھول دے۔ اسی لیے مؤمن صرف اسی سے امید رکھتا ہے، اسی کے در پر دستک دیتا ہے اور اسی سے خوف کھاتا ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعائے عرفہ میں مذکور ہے:

ماذا وجد من فقدک وما الذی فقد من وجدک۔

جس نے تجھے پایا اس نے کیا کھویا اور جس نے تجھے کھویا اس نے کیا پایا؟

۴۔ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ: وہ بالادست ہے۔ اس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز ہے۔ وہ غالب آنے والا ہے۔ کسی سے مغلوب نہیں ہو گا۔ وہ حکیم ہے۔ اپنی حکمت کے تحت اہل کو دیتا ہے۔ نا اہل سے روکتا ہے۔

یہ آیات مشرکین کے ان عقائد کی رد میں ہیں جن کے تحت وہ غیر اللہ سے روزگار، اولاد، دولت، شفا وغیرہ کی توقع رکھتے تھے۔

اہم نکات

۱۔ غیر اللہ سے امیدیں وابستہ کرنا ایک واہمہ ہے۔

۲۔ تمام خزانوں کا کھولنا بند کرنا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔


آیت 2