آیت 21
 

وَ مَا کَانَ لَہٗ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِالۡاٰخِرَۃِ مِمَّنۡ ہُوَ مِنۡہَا فِیۡ شَکٍّ ؕ وَ رَبُّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَفِیۡظٌ﴿٪۲۱﴾

۲۱۔ اور ابلیس کو ان پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی مگر ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخرت کا ماننے والا کون ہے اور ان میں سے کون اس بارے میں شک میں ہے اور آپ کا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا کَانَ لَہٗ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ: ابلیس کا بنی آدم پر ایسا تسلط قائم نہیں ہے کہ اپنی پیروی کرنے پر جبر کرے۔ وہ صرف وسوسہ پیدا کر سکتا ہے:

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ۔۔۔۔ (۱۵ حجر: ۴۲)

جو میرے بندے ہیں ان پر یقینا تیری بالادستی نہ ہو گی۔

۲۔ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِالۡاٰخِرَۃِ: ایک ممکنہ سوال کا جواب۔ سوال یہ ہے کہ وہ مسلط نہ سہی، اسے گمراہ کرنے کی آزادی کیوں دے رکھی ہے؟ جواب میں فرمایا: اسے آزادی صرف اس لیے دے رکھی ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ مؤمن بالآخرۃ کون ہے اور اس پر ایمان نہ رکھنے والے کون ہیں؟

جہاں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے بہت سے اسباب فراہم فرمائے ہیں، جیسے ضمیر، عقل، فرشتے اور انبیاء علیہم السلام، وہاں گمراہی کی طرف دعوت دینے والوں کو بھی نہیں روکا۔ جیسے خواہشات، شیاطین وغیرہ۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انسان کو کھڑا کیا گیا تاکہ ایمان اور شک والوں میں عملی امتیاز آجائے۔

اہم نکات

۱۔ شیطان انسان کو مجبور نہیں کرتا۔ وہ صرف دعوت دیتا ہے: وَ مَا کَانَ لَہٗ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ۔۔۔

۲۔ شیطان کو آزادی اس لیے دی ہے کہ انسان کا امتحان ہو سکے: اِلَّا لِنَعۡلَمَ۔۔۔۔


آیت 21