آیات 28 - 29
 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا﴿۲۸﴾

۲۸۔ اے نبی! اپنی ازواج سے کہدیجئے: اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کر شائستہ طریقے سے رخصت کر دوں۔

وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لیے اللہ نے یقینا اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

تفسیر آیات

جب بنی نضیر کی املاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت میں آ گئیں، بنی قریظہ کی املاک مہاجرین کے درمیان تقسیم ہونے پر ازواج رسولؐ کی توقعات زیادہ ہوگئیں تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے مطالبات بھی بڑھ گئے اورانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا شروع کی۔ ازواج کو یہ گمان ہو چلا تھا کہ یہودیوں کے عمدہ اموال خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لیے رکھے ہیں اس وجہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد بیٹھ گئیں اور کہا:

کسریٰ و قیصر کی بیٹیاں زیب و زینت، حشم و خدام میں ہیں اور ہم فاقے سے ہوتی ہیں۔ ہمیں بھی وہی سہولتیں فراہم کی جائیں جو شہنشاہوں کی بیویوں کوحاصل ہیں۔ ( البحرالمحیط ۸: ۴۷۱)

اس کے بعد ازواج کی تنبیہ کے لیے یہ آیات نازل ہوئیں اور ازواج کو اختیار دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں رہیں اور اسی زندگی پر قناعت کریں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہو جائیں۔

۱۔ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ: زوجات سے کہدیجیے: اگر موجودہ زندگی پر راضی نہیں ہو اور بہتر زندگی کی خواہش رکھتی ہو تو میں تمہیں دنیا کی بہتر زندگی نہیں دے سکتا۔ مسلمانوں کی سطح زندگی میں ایک مسلمان کی طرح زندگی اگر پسند نہیں ہے تو دوسری صورت یہ نہیں ہو گی کہ تمہیں بہتر زندگی مل جائے گی بلکہ دوسری صورت جدائی ہو گی۔

۲۔ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ: دوسری صورت یہ ہے کہ تمہیں کچھ مال دے کر شائستہ طور پر رخصت کروں۔ یہ حق مہر کے طور پر نہ ہو گا چونکہ حق مہر تو آپ ؐنے پہلے ہی سب ازواج کا ادا کر دیا تھا جیسا کہ اس آیت میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۵۰)

اے نبی! ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کی ہیں جن کے مہر آپ نے دے دیے ہیں۔

بلکہ کچھ مال مطلقہ کو دیا جاتا ہے تاکہ دو طلاق کے بعد عدت کے ایام گزار سکے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ لِلۡمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ (۲ بقرۃ: ۲۴۱)

اور مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق کچھ خرچہ دینا، یہ متقی لوگوں کی ذمے داری ہے۔

۳۔ سَرَاحًا جَمِیۡلًا: سے مراد بغیر کسی نزاع کے شائستہ طریقے سے طلاق دینا ہے۔

۴۔ وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ: ازواج کو اختیار دیا جا رہا ہے کہ اگر تم اللہ، رسول اور آخرت کی خواہاں ہو تو اسی زندگی پر قناعت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں رہو۔

۵۔ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ: اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں ہو تو پھر تمہیں نیکی کرنا ہو گی۔ اللہ کے پاس اجر عظیم صرف محسنات کے لیے ہے۔ اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ زوجیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رہ کر اگرمحسنات میں شامل ہوئیں تو اجر عظیم ملے گا۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی قیادت کو خاندانی دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے: قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ۔۔۔۔

۲۔ اسلامی قیادت سے وابستہ افراد کو عامۃ المسلمین کی سطح زندگی سے زیادہ بہتر زندگی نہیں ملنی چاہیے۔

۳۔ زوجہ کو انتخاب زندگی میں آزاد چھوڑنا چاہیے: وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا۔۔۔۔


آیات 28 - 29