آیات 7 - 9
 

الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ ۚ﴿۷﴾

۷۔ جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔

ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَہٗ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ ۚ﴿۸﴾

۸۔ پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا کیا۔

ثُمَّ سَوّٰىہُ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ پھر اسے معتدل بنایا اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنائے، تم لوگ بہت کم شکر کرتے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ: اللہ نے جو خلق فرمایا، وہ بہترین خلق فرمایا۔ کسی تخلیق میں کوئی نقص نہیں ہے۔ ہر مخلوق اپنی جگہ بہتر مخلوق ہے۔ ہر ایک کی تخلیق میں حکمت و مصلحت ہے:

مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ۔۔۔۔ (۶۷ ملک: ۳)

تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا۔

اللہ نے مخلوقات کو عبث اور بے نظمی میں خلق نہیں فرمایا بلکہ ایک نظام کے تحت خلق فرمایا ہے:

وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا﴿﴾ (۲۵ فرقان: ۲)

جس نے ہر چیز کو خلق فرمایا پھر ہر ایک کو اپنے اندازے میں مقدر فرمایا۔

لہٰذا ہر چیز میں اللہ کی طرف سے خیر ہی خیر ہے۔ اگر شر آتا ہے تو بندے کی طرف سے آتا ہے۔ بندے نے اس خیر کو شر سے بدل دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کوئی بھی چیز مطلق شر اور خیر نہیں ہے بلکہ خیر و شر اضافتی و نسبی ہیں۔ یہ انسان ہے جو خیر کو شر بناتا ہے۔

تلوار کی دھار کا تیز ہونا تلوار کا کمال ہے۔ اگر اس سے کسی مظلوم کا گلا کٹ جاتا ہے تو یہ تلوار کا نقص نہیں ہے، یہ انسان ہے جس نے تلوار کے کمال کو نقص میں بدل دیا۔ اسی طرح بچھو، سانپ، مگرمچھ وغیرہ میں اپنے تخلیقی اعتبار سے کوئی نقص نہیں ہے۔ ان کی خلقت میں موجود ہر چیز کی افادیت ہے۔ اگر کسی کو اس سے ضرر پہنچا ہے تویہ شخص کی نسبت سے شر ہے، یہ نسبت اللہ کی مخلوق نہیں ہے۔ اس کی ایک اور واضح مثال پانی ہے۔ پانی کی تخلیق میں مصلحت سب کو معلوم ہے اور اس پانی کا وافر ہونا بھی بہتر ہے لیکن اگر پانی کے طوفان کی وجہ سے کسی کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ اس شخص کی نسبت شر ہے۔

۲۔ وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ: انسانی تخلیق میں خاکی عناصر ہی استعمال ہوئے ہیں اور یہ نہیں معلوم ابتدائی خلیے (Cell) کو زندگی دینے کے لیے اسے کن مراحل میں گزارا گیا۔ تاہم یہ بات قرآنی نصوص کی روشنی میں واضح ہے۔ اس خلیے میں زندگی آنے سے پہلے یہ خاک کی گود میں پلتا رہا۔

۳۔ ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَہٗ مِنۡ سُلٰلَۃٍ: انسان کی خلقت کی ابتدا تو مٹی سے ہوئی لیکن اس کی نسلوں کے تسلسل کو سُلٰلَۃٍ کے ذریعے جاری رکھا۔ یعنی طین سے ابتدا ہوئی۔ سُلٰلَۃٍ سے نسل انسانی کو آگے بڑھایا۔ سُلٰلَۃٍ نچوڑ کے معنوں میں ہے۔ اس کا بظاہر یہ مطلب نکلتا ہے کہ انسانی تخلیق کی بنیاد تو ارضی عناصر، مٹی ہے لیکن اس مٹی سے نسل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خاص قسم کے پانی سے کام لیا گیا۔

۴۔ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ: حقیر بوند سے اس کائنات کی سب سے اہم مخلوق کی تخلیق ہوئی۔ چنانچہ اس جگہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

عَجِبْتُ لِابْنِ آدَمَ اَوَّلُہُ نُطْفَۃٌ وَ آخِرُہُ جِیفَۃٌ وَ ھُوُ قَائِمٌ بَیْنَہُمَا وِعَائً لِلْغَائِطِ ثُمَّ یَتَکَبَّرُ ۔ (وسائل الشیعۃ ۱: ۳۳۴)

مجھے اولاد آدم پر تعجب ہے کہ اس کی ابتداء ایک بوند ہے اور اس کی عاقبت بدبودار لاش ہے۔ درمیان میں فضلہ کے لیے ایک ظرف ہے۔ پھر تکبر کرتا ہے۔

۵۔ ثُمَّ سَوّٰىہُ: پھر اسے متعدل بنایا۔ اس کے اعضا و جوارح بنائے۔ جب مادی اعتبار سے ایک معتدل حالت میں آگیا، پھر اسے زندگی کا بار امانت اٹھانے کے قابل بنا دیا۔

۶۔ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ: پھر اس میں اللہ نے اپنی روح پھونک دی اور اس معتدل موجود میں اپنی امانت یعنی حیات ودیعت فرمائی۔ یہ بات اگرچہ مسلم ہے کہ مردہ مادے سے حیات پیدا نہیں ہوتی۔ حیات، حیات سے ہی پیدا ہو سکتی ہے تاہم حیات مادے کی گود میں پرورش پاتی ہے۔

مِنۡ رُّوۡحِہٖ: قابل توجہ بات یہ ہے کہ انسان کے مادی وجود کو اللہ نے مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ حقیر بوند سے تعبیر فرمایا اور بعد میں اس میں داخل ہونے والی روح کو اس قدر عزت دی کہ اسے اپنی طرف نسبت دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ روح ہی انسان ہے۔ جسم اس کے لیے ایک ظرف کی حیثیت رکھتا ہے جو پرانا ہونے پر بدلتا رہتا ہے۔

۷۔ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ: حواس میں سماعت اور بصارت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس لیے خصوصی طور پر ان دونوں کا ذکر فرمایا: الۡاَفۡـِٕدَۃَ سے مراد عقل ہی ہو سکتی ہے جو ان سب میں اہم ترین ہے اور جس سے انسان دوسری مخلوقات پر فوقیت حاصل کرتا ہے۔

۸۔ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ: عدم شکر یہ ہے کہ ان اعضاء کو اللہ کی خوشنودی کی راہ میں استعمال نہیں کرتے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی مخلوقات میں بہتری کا پہلو پیش نظر ہے: الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ ۔۔۔۔

۲۔ انسان کا مادی پہلو حقیر اور روحانی پہلو کی نسبت اللہ کی طرف ہے: مِنۡ رُّوۡحِہٖ ۔۔۔۔


آیات 7 - 9