آیات 2 - 5
 

غُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿۲﴾

۲۔ رومی مغلوب ہو گئے،

فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ قریبی ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہو جائیں گے،

فِیۡ بِضۡعِ سِنِیۡنَ ۬ؕ لِلّٰہِ الۡاَمۡرُ مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡۢ بَعۡدُ ؕ وَ یَوۡمَئِذٍ یَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

۴۔ چند سالوں میں، پہلے بھی اور بعد میں بھی اختیار کل اللہ کو حاصل ہے، اہل ایمان اس روز خوشیاں منائیں گے،

بِنَصۡرِ اللّٰہِ ؕ یَنۡصُرُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ۙ﴿۵﴾

۵۔ اللہ کی مدد پر، اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا فرماتا ہے اور وہ غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ غُلِبَتِ الرُّوۡمُ: روم سے مراد قدیم ’’رومن ایمپائرز‘‘ کا وہ مشرقی حصہ ہے جو سنہ ۳۹۵ء میں اس سے کٹ کر خود ایک الگ سلطنت بن گیا۔ مسیحیوں کے قبضے میں یہ سلطنت سنہ ۱۴۵۴ء تک رہی۔ اس کے بعد ترکوں کے قبضے میں آ گئی۔ اس کا دار الحکومت استنبول یا قسطنطینہ تھا۔ اسی کا قدیم نام جدید روم بھی ہے۔ شام فلسطین اور ایشائے کوچک کے علاقے سب اسی میں شامل تھے۔ (دریابادی)۔

سنہ ۶۱۵ عیسوی میں ایرانی بادشاہ خسرو نے سلطنت روم کے شام اور فلسطین کے علاقوں پر حملہ کیا جو اس زمانے میں روم کی سلطنت کا حصہ تھے۔ اس حملے میں ایرانیوں کو فتح مل گئی۔

۲۔ فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ: قریبی سر زمین سے مراد بلاد شام ہیں جو عرب علاقوں سے متصل تھے۔ واضح رہے اس زمانے میں بلاد شام عرب علاقے شمار نہیں ہوتے تھے۔

رومیوں پر ایرانیوں کا غلبہ ۶۱۵ عیسوی میں پورا ہوا جو تقریباً ۶ سال قبل از ہجرت ہے۔ یہی اس آیت کے نزول کا زمانہ ہے۔ مشرکین مکہ ایرانی مجوسیوں کے غلبے پر خوش تھے۔ کیونکہ مجوسی بھی توحید، وحی اور نبوت کے قائل نہ تھے۔ اس وجہ سے وہ مشرکین کے قریب المذہب تھے۔ جب کہ رومی عیسائی مذہب کے تھے اور وحی و رسالت کے ماننے والے اور مسلمانوں کے قریب المذہب تھے۔

۳۔ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ: قرآن کا عظیم زندہ معجزہ ہے کہ رومیوں کی شکست کی خبر کے ساتھ چند سالوں میں ایرانیوں پر رومیوں کے غالب آنے کی پیشگوئی فرمائی۔ چنانچہ اس غیبی خبر کے مطابق چند سالوں میں رومی ایرانیوں پر غالب آ گئے۔

۴۔ فِیۡ بِضۡعِ سِنِیۡنَ: اس پیشگوئی میں مدت کا تعین لفظ بِضۡعِ کے ساتھ فرمایا کیونکہ بِضۡعِ کا اطلاق تین سے نو تک کی تعداد پر ہوتا ہے جو کہ ۶۲۴ء میں پوری ہو گئی اور رومیوں کو ایرانیوں پر فتح مل گئی۔ اسی سال جنگ بدر میں مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہو گئی۔

۵۔ لِلّٰہِ الۡاَمۡرُ مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡۢ بَعۡدُ: حقیقت میں رومیوں کی فتح سے پہلے اور بعد اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر چاہے تو ایک فریق کو فتح دے دوسرے کو شکست دے۔ یہ فتح و شکست اللہ کی مشیت کے تابع ہے اور ان پوشیدہ رازوں کے تحت ہے جو ظاہر بینوں کی نظروں سے غائب ہیں۔

۶۔ وَ یَوۡمَئِذٍ یَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ: جس دن رومیوں کو فتح ملے گی۔ اہل ایمان کو اللہ کی اس نصرت پر خوشی ہو گی اور مشرکین اس دن مایوس ہوں گے چونکہ وہ پہلے ایرانیوں کی فتح کو اپنی حقانیت کی دلیل سمجھتے تھے۔


آیات 2 - 5