آیت 50
 

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور لوگ کہتے ہیں: اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں؟ کہدیجئے: نشانیاں تو بس اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالُوۡا: مشرکین کہتے ہیں کہ آپؐ عصائے موسیٰ، دم مسیح کی طرح کوئی معجزہ پیش کیوں نہیں کرتے۔ وہ تمسخر کے طور پر کہتے تھے: یہ کیسا رسول ہے جس کے پاس کوئی معجزہ نہیں ہے۔ وہ قرآن کو اعتناء میں نہ لاتے اور اسے معجزہ قبول نہیں کرتے تھے۔

۲۔ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ: کہدیجیے معجزہ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ ہر زمانے کے عصری تقاضوں کے مطابق معجزہ از خود دیتا ہے۔ تمہارے روز کے اور ہر شخص کے مطالبے پر نہیں دیتا کیونکہ جو لوگ معجزہ برائے اثبات حجت چاہتے ہیں ان کے لیے وہ معجزہ کافی ہے جو اللہ نے از خود اپنے رسول ؐ کے ہاتھ ظاہر فرمایا۔ عصائے موسیٰ ان لوگوں کے لیے کافی معجزہ تھا لیکن لوگوں نے اسے جادو کہہ کر ٹھکرا دیا۔

۳۔ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ: واضح طور پر تنبیہ کرنے کے لیے جو معجزہ درکار تھا وہ اللہ تعالیٰ نے از خود پیش فرمایا، وہ قرآن ہے لیکن اسے تم نے ٹھکرا دیا، جادو، خود ساختہ داستان کہہ کر وغیرہ۔

اہم نکات

۱۔ کس زمانے کے لیے کس قسم کا معجزہ دینا ہے اس فیصلہ کا حق اللہ کے پاس ہے: اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۔۔۔۔


آیت 50