آیت 77
 

قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ ۚ فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا﴿٪۷۷﴾

۷۷۔ کہدیجئے: اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا، اب تم نے تکذیب کی ہے اس لیے (سزا) لازمی ہو گی۔

تشریح کلمات

یَعۡبَؤُا:

( ع ب ء ) العبء الثقل وزن کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ: ایک تفسیر یہ ہے: کہدیجیے میرا رب تم کو کوئی وزن نہ دیتا، تمہارا وجود و عدم برابر ہے لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں۔ اس تفسیر کے مطاق انسان کو وزن دینے والی چیز دعا ہے۔نجات کے لیے واحد ذریعہ دعا ہے۔ بندگی سے انسان کو قدر و قیمت ملتی ہے اور دعا سے بندگی ملتی ہے۔

دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ دُعَآؤُکُمۡ تمہاری عبادت نہ ہوتی تو تمہارا رب تمہاری پرواہ نہ کرتا۔ تیسری تفسیر یہ: لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ اگر تمہارے رب کی طرف سے دعوۃ الی الحق نہ ہوتی تو تمہاری پرواہ نہ کرتا۔ تمہیں زندگی دی ہے اور زندہ رکھنا چاہتا ہے تو صرف اس لیے کہ تم کو حق کی دعوت پہنچ جائے۔ یہی تمہاری غرض خلقت ہے۔ اسی کے قریب ہے یہ فرمان:

مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۴۷)

اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟

۲۔ فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ: لیکن تم نے اس حق کی دعوت کی تکذیب کی ہے۔ اسے ٹھکرا دیا ہے۔ اب تمہارا کوئی وزن نہیں رہا۔ تمہارا وجود و عدم برابر ہے چونکہ تم نے اپنی غرض خلقت کو ٹھکرا دیا ہے۔

یہ تیسری تفسیر ذیل آیت کے ساتھ مربوط ہے لہٰذا میرے نزدیک یہی تفسیر سیاق آیت کے مطابق ہے۔

۳۔ فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا: اس تکذیب کی وجہ سے تم اللہ کے حتمی قانون کی زد میں آجاتے ہو۔ وہ ہے عذاب ابدی۔ اب عذاب تم پر لازم ہو گیا۔

اہم نکات

۱۔ حق کے داعی کی آواز پہچاننے سے انسان کو اللہ کے نزدیک قیمت مل جاتی ہے۔


آیت 77