آیت 63
 

لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا ۚ فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۶۳﴾

۶۳۔ تمہارے درمیان رسول کے پکارنے کو اس طرح نہ سمجھو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، تم میں سے جو دوسروں کی آڑ میں کھسک جاتے ہیں اللہ انہیں جانتا ہے، جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا خوف لاحق رہنا چاہیے کہ مبادا وہ کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں یا ان پر کوئی دردناک عذاب آجائے۔

تشریح کلمات

التسلل:

( س ل ل ) سل الشیء من الشیء کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز سے کھینچ لینے کے ہیں۔ اسی سے آنکھ بچا کر کھسک جانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

لِوَاذًا:

( ل و ذ ) کے معنی ہیں کسی چیز کی آڑ لینا اور اس کے پیچھے چھپ جانا۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا: دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ کا مطلب رسول کو پکارنا ہو سکتا ہے اور رسول کا پکارنا بھی۔ رسول کا پکارنا بلانا بھی ہو سکتا ہے اور بددعا بھی ہو سکتی ہے۔ اس طرح دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:

i۔ پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ بنتے ہیں: جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو، رسولؐ کو اس طرح یا محمد کہہ کر مت پکارو۔ جیسا کہ فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ (۴۹ حجرات: ۴)

جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں بلاشبہ ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے ۔

وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ (۴۹ حجرات:۲)

جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

رسول کے احترام کے منافی عمل سے انسان کی تمام نیکیاں حبط ہو جاتی ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کبھی رسول کو نام سے نہیں پکارا۔

ii۔ دوسری صورت میں یہ معنی بنتے ہیں: رسول ؐکے بلانے کو عام لوگوں کے بلانے کی طرح نہ سمجھو، رسولؐ کا بلانا اللہ کا بلانا ہے۔ اسی لیے رسول ؐکے بلانے پر فوری لبیک کہنا ایمان کا تقاضا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۲۴)

اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَوَلَّوۡا عَنۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَسۡمَعُوۡنَ (۸ انفال: ۲۰)

اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد تم اس سے روگردانی نہ کرو۔

اگر کوئی رسولؐ کے بلانے پر لبیک نہ کہے تو اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ وہ رسولؐ کو دل سے نہیں مانتا۔ اسی وجہ سے اگر نماز کی حالت میں بھی ہو تو رسولؐ کے بلانے پر فوری لبیک کہنا فرض ہے۔ رسول اللہؐ ابی بن کعب کے نزدیک سے گزر رہے تھے اور ابی نماز پڑھ رہے تھے۔ رسول اللہؐ نے ابی کو بلایا تو ابی نے نماز جلدی ختم کر کے حاضری دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

ما منعک ان تجیبنی اذ دعوتک ۔

جب میں نے تجھے بلایا تھا تو تو نے لبیک کیوں نہیں کہی؟

کہا: میں نماز میں تھا۔ فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۔۔۔

اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں۔

عرض کیا یا رسول اللہؐ! جب آپؐ مجھے بلائیں تو فوری لبیک کہنا ضروری ہوا، خواہ میں نماز میں ہی کیوں نہ ہوں۔

بغوی معالم التنزیل ۲: ۲۸۲، تفسیر کبیر رازی ۱۵: ۴۷۱، الکشاف ۲: ۲۱۰، بخاری تفسیر میں حدیث نمبر۱۹۶۱ میں ابو سعید بن المعلی سے یہی روایت کی کچھ فرق کے ساتھ کی ہے۔

لیکن بعض حضرات نے رسولؐ کے بلانے پر کھانے کو ترک نہیں کیا تھا اور کھاتے رہے۔ رسولؐ کی آواز پر لبیک نہ کہی تو رسول اللہؐ نے بد دعا دی:

لا اشبع اللّٰہ بطنہ ۔

اللہ اس کے شکم کو سیر نہ کرے۔

صحیح مسلم باب من لعنہ النبی حدیث ۲۵۸۰۔ ناصر الدین الالبانی کو رسول اللہؐ کی نیتوں کا علم ہے!! سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر ۸۲ میں لکھتے ہیں:

’’یہ بددعا کی نیت سے نہیں تھی۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیت کا اس بات سے علم ہو جاتا ہے: البدایۃ والنھایۃ جلد۸ صفحہ۱۱۹ میں سنہ۶۰ کے حالات کے ضمن میں لکھا ہے:

ان معاویۃ لما صار امیرا الی الشام کان یأکل فی الیوم سبع مرات ۔

جب معاویہ شام کے امیر بنے تو دن میں سات مرتبہ کھاتے تھے۔

اس کے ساتھ صحیح بخاری میں یہ حدیث دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

المؤمن یأکل فی معی واحد و الکافر یأکل فی سبعۃ امعاء ۔

ملاحظہ ہو صحیح بخاری ۔ کتاب الاطعمۃ باب المؤمن یأکل فی معی واحد ۔ ہم اس حدیث کی تطبیق کسی پرکرنا نہیں چاہتے چونکہ تطبیق کسی کے کرنے سے نہیں ہوتی۔ یہاں البدایۃ والنھایۃ کی روایت پر تبصرہ ہو سکتا ہے۔

iii۔ تیسری صورت میں آیت کے یہ معنی بنتے ہیں: رسولؐ کی بد دعا کو عام آدمی کی دعا کی طرح نہ سمجھو۔ اس لیے کہ آپؐ کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق ابن عباس نے آیت سے یہی معنی مراد لیا ہے۔ انہوں نے کہا:

احذروا اذا اسخطتموہ دعاء ہ علیکم فان دعائہ مجاب لیس کدعاء غیرہ ۔ (الجصاص: احکام القرآن ۵:۲۰۱، تفسیر طبری۔ ۱۸:۱۳۴)

تم جب رسولؐ کو ناراض کرو تو ان کی بددعا سے ڈرو چونکہ ان کی دعا قبول ہے، دوسروں کی دعا کی طرح نہیں ہے۔

اس تفسیر کے مطابق وہ توجیہ قرآن کے خلاف ہو جائے گی جس میں کہا جاتا ہے:

رسولؐ کسی پر لعنت یا سب یا بددعا کریں، وہ اس کے لیے رحمت بن جائے گی۔ (ملاحظہ ہو صحیح مسلم باب من لعنہ النبی)

یعنی رسولؐ کی لعنت رحمت میں تبدیل ہو جائے گی۔

جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ناحق کسی پر لعنت اور نفرین نہیں کرتے تھے، نہ معاذ اللہ گالی دیتے تھے۔ چنانچہ صاحب خلق عظیم کے بارے میں یہ روایت ہے:

ما رأیت رسول اللّٰہ یسبت احداً ۔ (سنن بیہقی حدیث ۳۵۵۴)

رسول اللہؐ کو کبھی کسی کو گالی دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔

تعجب کا مقام یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ایک مستقل باب ہے، اس کا یہ عنوان ہے:

باب من لعنہ النبی او سبّہ او دعا علیہ و لیس ھو اھلاً لذلک ۔

یعنی یہ باب بنیؐ کے کسی پر ناحق لعنت کرنے، گالی دینے اور بددعا دینے کے بارے میں ہے۔

چنانچہ اس عنوان میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہانت ہے۔

بعض مفسرین کے مطابق یہی تفسیر سیاق آیت کے مطابق ہے چونکہ اس آیت سے پہلے فرمایا ہے:

رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی امر جامع کے لیے بلائیں تو اجازت کے بغیر وہاں سے کھسک نہ جائیں۔ اگر ایسا کرتے ہیں تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ناراض ہو جائیں گے اور تمہیں بددعا دیں گے۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بددعا کواپنی دعاؤں کی طرح نہ سمجھو۔ ( البحر المدید ۴: ۷۳)

بہرحال آیت سے یہ تیسرے معنی ثابت ہوں یا نہ ہوں، مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول ؐ کی بددعا سے بچنا چاہیے۔ چونکہ رسولؐ کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اس جگہ کسی نے نہیں کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بددعا کا طالب ہونا چاہیے چونکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بددعا رحمت میں بدل جاتی ہے۔

ہمارے نزدیک ان تین معانی میں سے دوسری صورت سیاق آیت کے مطابق ہے کہ دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ سے مراد حکم رسولؐ اور دعوت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔ اس پر سابقہ آیت میں عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ اور اس آیت میں الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ اور یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ قرائن ہیں۔

۴۔ قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ: اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو دوسروں کے آڑ میں کھسک جاتے ہیں۔ اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جن کو رسولؐ بلاتے ہیں تو وہ مجلس رسولؐ میں بیٹھ کر رسولؐ کا حکم سننے کو اہمیت نہیں دیتے۔

۵۔ فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ: جو لوگ حکم رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں آیندہ دو چیزوں میں سے ایک چیز سے دوچار ہونے کا خطرہ لاحق رہے گا: فتنہ یا دردناک عذاب۔ ایسے فتنے میں مبتلا ہو جائیں گے جس سے ان کا نفاق ظاہر اور ضمیر فاش ہو جائے گا یا آخرت میں عذاب الیم سے دوچار ہوں گے۔

اہم نکات

۱۔ رسولؐ کی دعوت پر لبیک نہ کہنا نفاق کی علامت ہے۔


آیت 63