آیات 41 - 42
 

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الطَّیۡرُ صٰٓفّٰتٍ ؕ کُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسۡبِیۡحَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جو مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی؟ ان میں سے ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے اور اللہ کو ان کے اعمال کا بخوبی علم ہے۔

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَرَ: کیا آپ نے نہیں دیکھا؟ خطاب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے۔ اللہ نے اپنے رسولؐ کو کائنات کے اسرار و رموز سے واقف کر رکھا ہے۔ رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں کنکروں کی تسبیح سے یہ بات واضح ہے کہ رسولؐ کے لیے یہ بات واضح تھی۔ کائنات کی ہر شیء تسبیح کرتی ہے۔ جیسا کہ سورہ حج آیت ۱۸ میں بھی اسی طرح خطاب فرمایا:

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسۡجُدُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ وَ النُّجُوۡمُ وَ الۡجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ کَثِیۡرٌ مِّنَ النَّاسِ ۔۔۔۔

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے نیز سورج، چاند، ستارے،پہاڑ، درخت، جانور اور بہت سے انسان اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں۔

اس آیت میں غیر صاحبان عقل کے سجدے کا ذکر ہے اور اَلَمۡ تَرَ کیا آپ نے نہیں دیکھا کا خطاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا ان چیزوں کا سجدہ اور تسبیح رسولؐ کے لیے ایک مسلمہ امر ہے۔

۲۔ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ: اگرچہ لفظ مَنْ صاحبان عقل کے لیے استعمال ہوتا ہے تاہم از باب تغلیب غیر صاحبان عقل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اسی سورہ کی آیت ۴۵ میں پیٹ کے بل اور چار ٹانگوں پر چلنے والے جانوروں کے لیے لفظ مَنۡ استعمال ہوا:

مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی بَطۡنِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی رِجۡلَیۡنِ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰۤی اَرۡبَعٍ ۔۔۔۔

ان میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے اور کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور کوئی چار ٹانگوں پر۔۔۔

لیکن مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ میں سب شامل ہیں۔ اس پر شاہد وَ الطَّیۡرُ پرندوں کے ذکر کے بعد کُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسۡبِیۡحَہٗ ’’ان سب کو اپنی نماز و تسبیح کا علم ہے‘‘ کا جملہ ہے نیز اس موقف پر آیہ:

تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ۔۔۔۔ (۱۷ اسراء:۴۴)

ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو موجودات ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثنا میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔۔۔۔

شاہد ہے۔

۳۔ کُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسۡبِیۡحَہٗ: ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی نماز اور تسبیح ہوتی ہے۔ پرندوں کی اپنی نماز و تسبیح ہوتی ہے۔ انسان کی اپنی۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان میں سے ہر ایک کو علم ہے۔ البتہ ہر ایک کا علم اس کے حساب سے ہے۔ انسان کو اپنی نماز کا علم اور پرندوں کو بھی اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے۔ وہ علم کے مطابق ارادہ و اختیار سے نماز قائم کرتے اور تسبیح پڑھتے ہیں۔ اس کی یہ تاویل درست نہیں ہے کہ ہر ایک نماز و تسبیح زبان حال سے کرتے ہیں یا ان کی اللہ کی طرف احتیاج ان کی نماز ہے چونکہ دوسری آیت (بنی اسرائیل: ۴۴) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ۔۔۔۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ اللہ فرمائے کہ تم نہیں سمجھ سکتے اور ہم کہیں کہ ہم سمجھ سکتے ہیں، وہ زبان حال اور احتیاج ہے۔

کل کائنات، انسان، حیوان، جمادات سب اپنے خالق کی تسبیح و عبادت میں مشغول ہیں۔ قرآن نے پہاڑ درخت، چوپاؤں، پرندوں، سورج، چاند، ستاروں کی تسبیح کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے اور وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ سے عمومی اشیاء کی تسبیح کا ذکر فرمایا ہے۔

۴۔ وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: کائنات کی ہر شیء اپنے وجود، انجام کار اور اپنی بقا میں اللہ کی محتاج ہے۔ کائنات میں کوئی شیء ایسی نہیں ہے جس کی شہ رگ اللہ کے ہاتھ میں نہ ہو۔ لہٰذا کائنات پر اللہ کی ملکیت کا وہ تصور ہے جو کسی غیر اللہ کے لیے قابل تصور نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ کل کائنات اللہ کی تسبیح خواں ہے۔

۲۔ تسبیح ایک کائناتی فریضہ ہے جس سے صرف یہ انسان انحراف کرتا ہے۔


آیات 41 - 42