آیت 5
 

اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡا ۚ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۵﴾

۵۔ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں، اس صورت میں اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

قذف کا مرتکب ہونے کے بعد جو لوگ توبہ کرتے ہیں وہ فاسق نہیں رہتے۔ ان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں:

التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ ۔ (الکافی ۲: ۴۳۵)

گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جس سے گناہ سرزد ہوا ہی نہیں۔

کیا یہ استثنا سابقہ جملے (عدم قبول شہادت) کی طرف بھی سرایت کرے گا؟ یہاں ایک اصول فقہ کی بحث ہے جو ہماری تفسیری دائرہ بحث سے خارج ہے تاہم ایک مختصر اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ بحث یہ ہے:

اگر متعدد جملوں کے بعد ایک استثنا آجائے تو یہ استثناء صرف آخری جملہ کی طرف جائے گا یا سب جملوں کی طرف۔ مثلاً یہ حکم مل جائے: علماء کا احترام کرو، فقراء کی کمک کرو، سوائے ان لوگوں کے جو سیاسی ہیں تو یہ استثناء آخری جملے فقراء کے ساتھ مخصوص ہے یا دونوں جملوں کے ساتھ۔

زیر بحث آیت میں توبہ کرنے والوں کا استثناء آخری جملہ فاسقون کے ساتھ مختص ہے یا دونوں جملوں سے استثناء ہے۔ اگر صرف آخری جملہ کے ساتھ مختص ہے تو ان قذف کرنے والوں کی شہادت ناقابل قبول ہو گی اور اگر دونوں جملوں کے ساتھ ہے تو توبہ کے بعد ان کی شہادت قبول ہو جائے گی۔

زیادہ مورد قبول موقف یہاں یہ ہے کہ آخری جملے سے تو یقینا استثناء ہو جائے گا اس کے بعد دوسرے جملوں سے استثنا و عدم استثنا قرائن پر موقوف ہے۔ اگر کوئی قرینہ نہیں ہے تو صرف آخری جملہ سے استثنا سمجھا جائے گا۔

چنانچہ اس آیت میں یہ قرینہ سمجھا جاتا ہے کہ جب توبہ کے بعد فاسق نہ رہے تو غیر فاسق کی شہادت قبول ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ استثناء دونوں جملوں کی طرف جائے گا۔

واضح رہے اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا کا استثناء پہلے حکم یعنی قذف کی سزا سے متعلق نہیں ہو سکتا چونکہ اس کا تعلق مقذوف سے ہے جس میں توبہ مؤثر نہیں ہے۔ توبہ ان باتوں سے متعلق ہوتی ہے جن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے۔

چنانچہ مقذوف اگر معاف کر دے تو حد ساقط ہے۔ معاف کرنے کے بعد مقذوف دوبارہ حد کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔


آیت 5