آیت 90
 

فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ ۫ وَ وَہَبۡنَا لَہٗ یَحۡیٰی وَ اَصۡلَحۡنَا لَہٗ زَوۡجَہٗ ؕاِنَّہُمۡ کَانُوۡا یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَ یَدۡعُوۡنَنَا رَغَبًا وَّ رَہَبًا ؕوَ کَانُوۡا لَنَا خٰشِعِیۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحییٰ عطا کیے اور ان کی بیوی کو ان کے لیے نیک بنا دیا، یہ لوگ کارہائے خیر میں سبقت کرتے تھے اور شوق و خوف (دونوں حالتوں) میں ہمیں پکارتے تھے اور ہمارے لیے خشوع کرنے والے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ زکریا علیہ السلام کی دعا قبول ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں فرزند عطا فرمایا۔ اس فرزند کا نام یحییٰ رکھا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ مریم کی ابتدائی آیات اور آل عمران۔

۲۔ وَ اَصۡلَحۡنَا لَہٗ زَوۡجَہٗ: اصلاح کا مطلب بانجھ پن کو دور کرنا اور حمل کے لائق بنانا ہے۔

۳۔ ؕاِنَّہُمۡ کَانُوۡا یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ: قبولیت دعا کے لیے لازم شرائط موجود ہونے کی طرف اشارہ ہے:

یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ: وہ کار خیر میں سبقت لے جانے والے تھے۔

ii۔ وَ یَدۡعُوۡنَنَا: شوق اور خوف دونوں حالتوں میں پکارتے تھے۔

رَغَبًا: وہ رضائے رب، قبولیت دعا اور ثواب کے بارے میں شوق و جذبے کے ساتھ دعا کرتے تھے۔

رَہَبًا: اللہ کے غضب سے خوف کی وجہ سے ہمیں پکارتے ہیں۔ وہ اچھے دنوں میں رغبۃً پکارتے ہیں تو ہم برے دنوں میں دعا قبول کرتے ہیں۔

iii۔ ؕوَ کَانُوۡا لَنَا خٰشِعِیۡنَ: تیسری خصوصیت جس کی وجہ سے دعا قبول ہوئی، خشوع ہے۔ ٹوٹے دلوں سے پکارا جائے تو دعا سنی جاتی ہے۔ صرف زبان ہلانے کو دعا اور پکار نہیں کہتے۔

اہم نکات

۱۔ قبولیت دعا کے لیے نیکی میں سبقت لے جانا، اچھی بری دونوں حالتوں میں اللہ کو پکارنا اور خشوع سے دعا کرنا شرط ہے۔

۲۔ اللہ کی خوشنودی کا شوق اور ناراضگی کا خوف، خوف و امید کے درمیان دعا کی جاتی ہے۔


آیت 90