آیت 7
 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردان (حق) ہی کی طرف وحی بھیجی ہے، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ اِلَّا رِجَالًا: تاریخ انبیاء میں کسی غیر انسان کو اللہ نے نبوت کے درجہ پر فائز نہیں فرمایا۔ انبیاء علیہم السلام بھی رجال، انسان ہیں مگر ان کا امتیاز یہ ہے:

۲۔ نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ: ان پر اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔ جس وجود کو لوگ انسانوں کی طرح سمجھتے ہیں وہ اور ہے، وہ انسانوں میں سے ایک انسان ہے لیکن جس وجود پر وحی ہوتی ہے وہ عام انسانوں کی طرح نہیں ہے۔

۳۔ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ: اگر تم نہیں جانتے ہو کہ انبیاء انسانوں میں سے مبعوث ہوتے رہے ہیں تو اَہۡلَ الذِّکۡرِ سے پوچھ لو۔ الذِّکۡرِ سے مراد کتب سماوی ہیں اور اَہۡلَ الذِّکۡرِ ان کتابوں کا علم رکھنے والے اہل کتاب ہیں۔ چونکہ مشرکین اور اہل کتاب دونوں رسول اللہؐ کے خلاف تھے اور اہل کتاب مشرکین کی حمایت کرتے تھے تو یہاں ان سے کہا گیا: خود تمہاری حمایت کرنے والے اہل کتاب سے پوچھ لو کہ ان کے انبیاء رجال تھے یا فرشتے؟

اَہۡلَ الذِّکۡرِ: حضرت امام باقر علیہ السلام سے زرارہ نے روایت کی ہے کہ آپ ؐنے فرمایا: ہم اَہۡلَ الذِّکۡرِ ہیں۔ یہی روایت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ ملاحظہ ہو: محمد بن مسلم کی روایت تفسیر طبری ۱۴:۶۹، تفسیر ابن کثیر ۲:۵۷، حافظ ابن مؤمن کی تفسیر جو بارہ تفاسیر کا خلاصہ ہے، روح المعانی ۱۴:۱۳۴ میں۔

تفسیر اور شان نزول: قرآن کی تفسیر اور شان نزول کے بارے میں یہ بات ہر قاری کے ذہن میں ہونی چاہیے کہ قرآن صرف شان نزول میں محدود نہیں ہے بلکہ قرآن اپنے لفظی اور تعبیری دائرے میں شان نزول سے وسیع تر ہے۔ چنانچہ اصول تفسیر میں ایک جملہ مشہور ہے:

العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب ۔

لفظ کے عموم کو اعتبار حاصل ہے، سبب نزول کی خصوصیت کو نہیں۔

اس آیت میں نزول کے اعتبار سے یہ بات ناممکن ہے کہ منکرین رسالت سے کہا جائے: اہل بیت رسول سے پوچھ لو۔ وہ خود رسول کو نہیں مانتے اہل بیت کو کیسے مان سکتے ہیں لیکن تعبیر کے عموم میں مسلمان بھی شامل ہیں کہ کوئی بات اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھو۔ قرآن کے ذکرہونے میں کسی کو کلام نہیں ہے:

اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ (۳۶ یٰس: ۶۹)

یہ تو بس ایک نصیحت (کی کتاب) اور روشن قرآن ہے۔

اسی طرح اہل بیت علیہم السلام کے عالم قرآن ہونے کی وجہ سے اہل ذکر ان پر صادق آتا ہے۔ اسی طرح اہل بیت علیہم السلام کے رُتبے کا کوئی بھی عالم بالقرآن ہو، وہ بھی اس کا مصداق بن سکتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے رتبے کا کوئی عالم بالقرآن نہیں ہے۔


آیت 7