آیات 11 - 12
 

فَلَمَّاۤ اَتٰىہَا نُوۡدِیَ یٰمُوۡسٰی ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ پھر جب وہ آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی: اے موسیٰ!

اِنِّیۡۤ اَنَا رَبُّکَ فَاخۡلَعۡ نَعۡلَیۡکَ ۚ اِنَّکَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ میں ہی آپ کا رب ہوں، پس اپنی جوتیاں اتار دیں،بتحقیق آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں۔

تشریح کلمات

طُوًی:

کوہ سینا، بقول بعضے کوہ طور کے دامن میں موجود میدان کا نام ہے اور آیہ وَ نَادَیۡنٰہُ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ الۡاَیۡمَنِ ۔۔۔۔ (۱۹ مریم: ۵۲) ’’ہم نے موسی کو طور کی دائیں جانب سے پکارا‘‘ اس قول پر شاہد بن جاتی ہے۔

تفسیر آیات

نُوۡدِیَ یٰمُوۡسٰی: اس ندا کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہچان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ اس آواز کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عام ظاہری حواس سے نہیں سنا کہ شک کی گنجائش رہ جائے بلکہ اپنے باطنی حواس سے سنا جس میں شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

فَاخۡلَعۡ نَعۡلَیۡکَ: جوتا اتارنا بلحاظ ادب و احترام ہی ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں اسرائیلی تہذیب میں بھی جوتا اتارنا ادب میں شمار ہوتا تھا۔ آیت کا اگلا جملہ اِنَّکَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں، بتاتا ہے کہ نعلین کا اتارنا ادب و احترام کے لیے تھا۔

طویٰ کی وادی کو نزول وحی کا مقام ہونے کی وجہ سے تقدس حاصل ہوا۔ اس لیے اس وادی کی مٹی سے پاؤں کا مس ہونا بھی مطلوب ہو سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ مہبط وحی کا احترام لازم ہے۔


آیات 11 - 12