آیات 71 - 72
 

وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا ﴿ۚ۷۱﴾

۷۱۔ اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہو گا جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ حتمی فیصلہ آپ کے رب کے ذمے ہے۔

ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡہَا جِثِیًّا﴿۷۲﴾

۷۲۔ پھر اہل تقویٰ کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا چھوڑ دیں گے۔

تشریح کلمات

وَارِدُہَا:

( و ر د ) الورود پانی کا قصد کرنا۔ پانی پر پہنچنے والے کو وارد کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

تمام مکلف انسانوں کو ایک مرتبہ جہنم میں وارد ہونا ہے۔ اس مطلب کو نہایت تاکیدی لفظوں کے ساتھ بیان فرمایا: کَانَ عَلٰی رَبِّکَ آپ کے رب کے ذمے ہے۔ یہ بات اللہ پر لازم اور واجب ہے۔ اللہ پر کوئی اور لازم اور واجب نہیں کر سکتا بلکہ خود اللہ اپنے اوپر لازم کر فرماتا ہے۔ جیسا کہ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۔۔۔۔ (۶ انعام:۵۴) تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا۔ اس طرح تمام انسانوں کو ایک مرتبہ آتش جہنم میں وارد کرنا مشیت الٰہی میں واجب ہے۔

حَتۡمًا: واجب اور لازمی شیٔ کو حتمی کہتے ہیں۔ لسان العرب میں آیا ہے: حتمت علیہ الشیٔ اوجبتہ ۔ میں نے اس پر حتمی یعنی واجب کر دیا۔ مَّقْضِيًّا فیصلہ شدہ ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ جیسے وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ۔۔۔۔۔ (۱۷ بنی اسرائیل:۲۳) اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔

۱۔ یہاں خطاب تمام مکلف انسانوں سے ہے خواہ مؤمن ہوں یا کافر۔ اس پر دلیل بعد کی آیت ہے جس میں فرمایا : ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا پھر ہم تقویٰ والوں کو نجات دیں گے۔ وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیۡنَ اور ظالموں کو اس میں چھوڑ دیں گے۔

۲۔ کیا وَارِدُہَا میں ورود، حضور کے معنوں میں ہے یا داخل ہونے کے معنوں میں؟ کیونکہ یہ لفظ اگرچہ لغت میں پانی کا قصد کرنے اور پانی پر پہنچنے کے معنوں میں ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے: وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ (۲۸ قصص:۲۳) جب مدین کے پانی پر پہنچے، لیکن اس لفظ کا استعمال داخل ہونے کے معنوں میں بھی ہوا ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:

اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ؕ اَنۡتُمۡ لَہَا وٰرِدُوۡنَ (۲۱ انبیاء:۹۸)

بتحقیق تم اور تمہارے وہ معبود جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے تھے جہنم کاایندھن ہیں جہاں تمہیں داخل ہونا ہے۔

ان دونوں معنوں میں استعمال کی وجہ سے یہاں یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ وَارِدُہَا میں وارد کے معنی حضور کے ہیں یا داخل ہونے کے ہیں۔ کیا مؤمن و غیر مؤمن سب جہنم میں داخل ہو جائیں گے پھر مؤمنین کو نجات ملے گی یا ان سب کو جہنم کے پاس حاضر کیا جائے گا۔

پہلے نظریہ پر تین دلیلیں قائم کی جاتی ہیں:

اول: قرآن میں وارد داخل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

دوم: یہ کہ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا پھر ہم تقویٰ والوں کو نجات دیں گے قرینہ ہے کیونکہ داخل نہ ہوئے ہوں تو نجات کس چیز سے۔

سوم: اس سلسلے میں وارد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں داخل ہونا مراد ہے۔

اس نظریہ پر یہ سوال آتا ہے کہ مؤمن جہنم میں کس لیے جائے گا؟

جواب دیتے ہیں: مؤمن کے لیے آتش جہنم گلزار بن جائے گی جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آتش نمرود گلزار بن گئی تھی۔

دوسرا جواب یہ بھی دیتے ہیں: جہنم میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں آتش باعث عذاب نہیں ہوتی۔ خود جہنم کے زبائن (کارندے) جہنم میں ہوتے ہیں لیکن ان کو عذاب نہیں ہوتا۔

تیسرا جواب اس صورت میں دیتے ہیں کہ مؤمن کا جسم آتش جہنم کو قبول نہیں کرتا جب کہ کافر کا جسم جہنم کے لیے ایندھن بنتا ہے۔

اس سوال کے جوابات سے معلوم ہوا کہ اس نظریے کو قبول کرنے میں تکلف کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسرے نظریے پر یہ دلائل قائم کرتے ہیں:

i۔ وارد کے لغوی معنی حضور کے ہیں۔ لفظ جب قرینہ کے بغیر استعمال ہوتا ہے تو لغوی معنی مراد لیا جاتا ہے۔ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا قرینہ نہیں بنتا کیونکہ نجات، آتش جہنم میں داخل ہونے پر موقوف نہیں۔’’آتش میں داخل ہونے سے نجات‘‘ مراد لی جا سکتا ہے۔

ii۔ قرآن میں مؤمن کے بارے میں آیا ہے۔

اُولٰٓئِکَ عَنۡہَا مُبۡعَدُوۡنَ لَا یَسۡمَعُوۡنَ حَسِیۡسَہَا ـ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء:۱۰۱۔۱۰۲)

وہ اس آتش سے دور ہوں گے جہاں وہ اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے۔

iii۔ وہ روایات جو انسان کو صراط سے گزارنے کے بارے میں کثرت سے آئی ہیں، اس پر دلیل بنتی ہیں کہ وارد سے مراد حضور ہے اور ممکن ہے اس آیت کو ہم صراط پر تطبیق کریں۔

iv۔ دیگر متعدد روایات میں آیا ہے کہ مؤمن کو جنت میں داخل کرنے سے پہلے جہنم کے پاس ضرور لے جایا جائے گا تاکہ جنت کی نعمتوں کی قدر کرے۔ اسی طرح جہنمی کو جنت کے پاس سے گزارا جائے گا۔

اہم نکات

۱۔ ہر مکلف کو قریب سے جہنم کا مشاہدہ کرایا جائے گا۔

۲۔ یہ بات مصلحت الٰہی کے تحت حتمی فیصلہ ہے۔


آیات 71 - 72