آیات 116 - 117
 

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلۡسِنَتُکُمُ الۡکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ لَا یُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۱۶﴾ؕ

۱۱۶۔ اور جن چیزوں پر تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگاتی ہیں ان کے بارے میں نہ کہو یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تم اللہ پر جھوٹ افترا کرو، جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ یقینا فلاح نہیں پاتے ۔

مَتَاعٌ قَلِیۡلٌ ۪ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ چند روزہ کیف ہے اور پھر ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ: خطاب اس مرتبہ خود مسلمانوں سے ہے کہ تم پر جو حرام قرار دیا گیا ہے وہ مردار خون، سور کا گوشت اور وہ جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ ان کے علاوہ جن چیزوں کو تم حرام و حلال قرار دیتے ہو یہ افتراء علی اللہ ہے۔

واضح رہے قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا لازمی نتیجہ ہے۔ لہٰذا اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو قبول کر لینے کے بعد قانون سازی میں مداخلت کرنا اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ یونس آیت ۵۹۔

۲۔ لِّتَفۡتَرُوۡا عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ: اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دینا نہایت عظیم گناہ اور جرم ہے۔ فرمایا:

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۲۱)

اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرے یا اس کی آیات کو جھٹلائے؟

اہم نکات

۱۔ قانون سازی اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔


آیات 116 - 117