آیت 173
 

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔یقینا اسی نے تم پر مردار، خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام قرار دیا، پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ بغاوت کرنے اور ضرورت سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

اُہِلَّ:

( ھ ل ل ) ہلال۔ آشکار کرنا۔ چاند نظر آنے پر آواز بلند کرنا۔ پھر یہ لفظ ہر آواز بلند کرنے کے لیے استعمال ہونے لگا: وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ جس جانور پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو۔

بَاغٍ:

(ب غ ی) بغاوت اور سرکشی کرنے والا۔

عَادٍ:

(ع د و) تعدی اور تجاوز کرنے والا۔

تفسیر آیات

مقصود کلام یہ نہیں کہ اسلامی شریعت میں فقط مذکورہ چیزیں ہی حرام ہیں، بلکہ مشرکین نے جو چیزیں اپنے لیے حلال قرار دے رکھی تھیں، ان میں سے حرام اشیاء کو الگ کر کے بیان کیا جا رہا ہے۔

مَیۡتَۃَ یعنی مردار وہ جانور ہے جو ذبح شرعی کے بغیر مر جائے۔ اس قسم کے مردار سے ہرطرح کا استفادہ حرام ہے۔ فقہ جعفری میں مردار کا چمڑا دباغت کے ذریعے بھی پاک اور جائز الاستفادہ نہیں ہوتا، جب کہ دیگر فقہی مذاہب میں مردار کا چمڑا دباغت سے پاک اور جائز الاستفادہ ہو جاتا ہے۔

مردار اور خون حرام ہونے کی متعدد وجوہ ہو سکتی ہیں، لیکن جہاں تک انسانی تجربات کی رسائی ہوئی ہے، ان کے مطابق خون کے اندر بہت سی حل شدہ غذائی اشیاء پائی جاتی ہیں اور خون کے پلازما میں متعدد بیماریوں کے جراثیم بھی پائے جاتے ہیں۔ اگرہم اس خون کو ذبح کے شرعی طریقے کے مطابق کاٹی گئی رگوں سے خارج نہ کریں تو یہ جراثیم ذبیحہ کا گوشت کھانے والے کے جسم کو متاثر کر سکتے ہیں۔

خون کے تمام جرثومے ہڈیوں کے گودے میں بنتے ہیں۔ سفید خلیے حیوانی جسم پر کسی بھی جراثیمی حملے کی صورت میں دفاعی فوج کا کردار ادا کرتے ہیں اور حملہ آور جراثیم کا مقابلہ کرتے ہیں۔ عام حالات میں خون کے سرخ خلیے ایک سو بیس (۱۲۰) دن تک زندہ رہتے ہیں، جب کہ سفید خلیے صرف دس دن تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ بنا بریں کسی حیوان کے مرنے پر اس کا دفاعی نظام جلد ہی ختم ہو جاتا ہے، جب کہ پلازما اور سرخ خلیے رگوں میں موجود رہتے ہیں۔ یہ پلازما سرخ خلیے کی موجودگی میں مہلک جراثیم کی افزائش نسل کا بہترین ذریعہ بنتا ہے۔ بیماری کے یہ جراثیم یا تو خون میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں جو سفید خلیوں سے بچنے کے لیے اپنے اوپر دفاعی خول چڑھا لیتے ہیں یا پھر ہوا اور پانی کے ذریعے اس مردہ جسم میں شامل ہو جاتے ہیں جو آخر کار حیوانی گوشت کوقابل استفادہ نہیں رہنے دیتے۔ شرعی ذبیحے میں چونکہ رگوں سے خون پوری طرح خارج ہو جاتا ہے، لہٰذا پلازما اور سرخ خلیے گوشت میں موجود نہیں رہتے۔ اس طرح گوشت بیماری کے جراثیم سے پاک ہو جاتا ہے۔

یہاں مشرکین کا ایک قیاس قابل توجہ ہے۔ کہتے تھے : مسلمان اس جانور کو حلال کہتے ہیں جسے انہوں نے خود مارا ہے اور جسے اللہ نے مارا ہے (مردار) اسے حرام سمجھتے ہیں۔

خنزیر کا گوشت: سور کے گوشت کی حرمت میں بہت سی مصلحتیں ہو سکتی ہیں۔ انسان ان تمام مصلحتوں کا ادراک نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان تمام رازوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے جن پر شرعی احکام کا دارومدار ہے۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق سور کاگوشت انسانی نفسیات اور صحت پر نہایت برے اثرات چھوڑتا ہے۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ سور کے گوشت میں دو قسم کے جراثیم ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک قسم کے جراثیم کو TRICHIN کہتے ہیں جو ایک جھلی کے ذریعے سور کا گوشت کھانے والے کے معدے میں اتر جاتا ہے اور نظام انہضام کی وجہ سے جب جھلی ختم ہو جاتی ہے تو یہ جراثیم انسانی جسم میں بری طرح پھیل جاتے ہیں۔

نیز سور کے گوشت میں نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ سور کا گوشت کھانے والا انسان غیرت و حیا سے عاری ہو جاتا ہے، جیسا کہ مغرب والوں کا حشر ہے۔ کیونکہ ہر جاندار کے اجزائے بدن اس کے خلق و خو کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔

غیر اﷲ کے نام کا ذبیحہ: اس سے مراد مشرکین کا عمل ہے کہ وہ اپنے بتوں کے نام لے کر جانور ذبح کرتے اور ان سے تقرب حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اسلامی شریعت میں ایسا جانور مردار ہوتا ہے۔ اسی لیے جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ضروری قرار دیا گیا ہے۔

استثنائی حالت: درج بالا اشیاء عام حالات میں حرام ہیں، لیکن بوجہ مجبوری ان چیزوں کو کھانا اور صرف ضرورت پر اکتفا کیاجائے تو اس صورت میں یہ گناہ شمار نہ ہو گا۔ اس قسم کے احکام کو ثانوی اور متحرک احکام کہتے ہیں جو حالت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی نقطۂ نظر سے مردار سے ہر قسم کا استفادہ حرام ہے۔

۲۔ کسی ذی روح کی حیات کو ختم کر کے اسے کھانا حیات دینے والی ہستی کی اجازت سے ہی جائز ہو گا۔

۳۔ انسان کی بے راہ روی اوراخلاقی برائیوں میں حرام اور نجس غذاؤں کا بڑا عمل دخل ہے۔

تحقیق مزید: الکافی ۳ : ۴۳۸، الفقیہ ۳ : ۳۴۳، تفسیر العیاشی ۱ : ۷۴۔


آیت 173