آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ النحل

اس سورہ میں نحل (شہد کی مکھی) کا ذکر آیا ہے۔ اسی مناسبت سے اسے سورہ نحل کہتے ہیں۔

بعض آیات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سورہ اس وقت نازل ہوا جب کفار مکہ کی طرف سے ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ آیت:

مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ ۔۔۔ (۱۶ نحل: ۱۰۶)

جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لیے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو۔۔۔۔

حضرت عمار یاسرؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب ان کے والدین شہید کر دیے گئے اور ان کو کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور ہجرت الی الحبشہ کے بعد نازل ہوا ہے چونکہ اس سورہ میں ہجرت کا ذکر ہے۔

بعض مفسرین نے ذکر ہجرت کو دلیل قرار دیا ہے کہ اس سورہ کا ایک حصہ ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوا ہے جب کہ ہجرت کے ذکر سے ہجرت مدینہ ثابت نہیں ہوتی۔ اسی طرح جہاد کے ذکر سے بھی جنگ ثابت نہیں ہوتی۔

نیزاسی سورۃ کی آیت نمبر ۱۱۸ میں فرمایا:

وَ عَلَی الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا مَا قَصَصۡنَا عَلَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ ۔۔۔۔

اور جنہوں نے یہودیت اختیار کی ہے ان پر وہی چیزیں ہم نے حرام کر دیں جن کا ذکر پہلے ہم آپ سے کر چکے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہ سورۃ، سورۃ الانعام کے بعد نازل ہوا ہے۔

دیگر سورہ ہائے مکی کی طرح یہ سورۃ بھی الٰہیات، وحی، معاد جیسے موضوعات پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔

معاملات کے بارے میں بھی احکام ملتے ہیں جیسے عدالت، احسان، انفاق، وفا بعہد ۔

اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا اس سورہ میں کثرت سے ذکر ملتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے سورۃ النعم ، نعمتوں کا سورہ بھی کہا جاتا ہے۔

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اَتٰۤی اَمۡرُ اللّٰہِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡہُ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۱﴾

۱۔ اللہ کا امر آگیا پس تم اس میں عجلت نہ کرو وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَتٰۤی اَمۡرُ اللّٰہِ: مشرکین بار بار از راہ طعن و طنز کہتے تھے: اگر تم اللہ کے رسول ہو تو وہ عذاب کیوں نہیں آتا جس کی ہمیں دھمکی دی جارہی ہے۔

اس کے جواب میں فرمایا: جس عذاب و تباہی کا وعدہ تھا اس کا فیصلہ آگیا۔

رہا یہ سوال کہ وہ کون سا فیصلہ تھا جو اس وقت کفار مکہ کے خلاف آگیا تھا۔

جواب دیا جاتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین کی رسوائی کا وقت آگیا ہے اور جب کوئی واقعہ قریب الوقوع اور متیقن الوقوع ہو تو صیغہ ماضی استعمال کیا جاتا ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی اور مشرکین کی رسوائی کا فیصلہ آ ہی گیا اور اس فیصلے کے مطابق ہجرت شروع ہو گئی جس سے اسلام کی کامیابی اور کفر کی رسوائی کی ابتدا ہو گئی۔

۲۔ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی: کفر کی نابودی میں تاخیر کا سبب یہ نہیں کہ ان کا مشرکانہ عقیدہ صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ مشرکین کے اس زعم سے بالاتر ہے کہ اللہ ان کو شرک کے مرتکب ہونے کے باوجود سزا نہیں دے رہا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کا امر اپنے وقت پر ضرور آتا ہے۔


آیت 1