آیت 3
 

ذَرۡہُمۡ یَاۡکُلُوۡا وَ یَتَمَتَّعُوۡا وَ یُلۡہِہِمُ الۡاَمَلُ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ انہیں چھوڑ دیجئے کہ وہ کھائیں اور مزے کریں اور ( طویل )آرزوئیں انہیں غافل بنا دیں کہ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

تشریح کلمات

یُلۡہِہِمُ:

( ل ھ و ) اَلْھَاہُ ۔ اسے غافل بنا دیا۔ لاھیۃ قلوبہم ۔ ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ ذَرۡہُمۡ یَاۡکُلُوۡا وَ یَتَمَتَّعُوۡا: ان کافروں پر حجت پوری ہو گئی ہے اور یہ قابل ہدایت نہیں ہیں۔ انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دیجیے۔ یہ دنیا کی لذتوں میں مگن رہیں۔ یہ کھانے پینے کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں مال و متاع، جاہ و سلطنت اور لمبی زندگی جیسی آرزوؤں نے انہیں غافل بنا دیا ہے۔

۲۔ وَ یُلۡہِہِمُ الۡاَمَلُ: ان کافروں کی دوباتوں کا ذکر ہے: خواہشات میں مگن اور لمبی آرزوئیں، جو خدا فراموش قوموں کی خاصیتیں ہیں۔ جو فرد یا قوم ناز و نعمتوں میں مگن ہوتی ہے وہ خدا و آخرت سے غافل ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم مسلم معاشروں کے خوشحال افراد اور مغربی اقوام میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ اَخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمُ اثْنَتَانِ اتِّبَاعُ الْھَوَی وَطُولُ الْاَمَلِ فَاَمَّا اتِّبَاعُ الْھَوَی فَیَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ وَ اَمَّا طُولُ الْاَمَلِ فَیُنْسِی الآْخِرَۃَ ۔۔۔۔ ( نہج البلاغۃ ص ۸۳ خ ۴۲)

مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو باتوں کا ڈر ہے۔ ایک خواہشوں کی پیروی اور دوسرے امیدوں کا پھیلاؤ۔ خواہشوں کی پیروی وہ چیز ہے جو حق سے روک دیتی ہے اور امیدوں کا پھیلاؤ آخرت کو بھلا دیتا ہے۔

--------------

اہم نکات

۱۔۔ زندگی کی ناز و نعمت خدا فراموشی کے اسباب ہیں۔ وَ یَتَمَتَّعُوۡا

۲۔۔ جو لوگ لمبی آرزوں میں رہتے ہیں وہ آخرت سے غافل ہوتے ہیں۔ وَ یُلۡہِہِمُ الۡاَمَلُ -


آیت 3