آیت 11
 

قَالَتۡ لَہُمۡ رُسُلُہُمۡ اِنۡ نَّحۡنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ مَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نَّاۡتِیَکُمۡ بِسُلۡطٰنٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا: بیشک ہم تم جیسے بشر ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے اور ہمارے اختیار میں نہیں کہ ہم تمہارے سامنے کوئی دلیل (معجزہ) اذن خدا کے بغیر پیش کریں اور مومنوں کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَتۡ لَہُمۡ رُسُلُہُمۡ: مشرکین انسان کو رسالت اور اللہ کی طرف سے نمائندہ ہونے کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہم جیسا بشر اللہ کا نمائندہ نہیں ہو سکتا۔ جو شخص ہماری طرح کھانے پینے کا محتاج ہو وہ اللہ کی طرف سے رسول نہیں ہو سکتا۔

۲۔ اِنۡ نَّحۡنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ: جواب میں انبیاء علیہم السلام فرماتے ہیں کہ ہم تمہاری طرح نظر آنے والے وجود، انسان ہیں اور انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے کہ ہمارا وجود تم کو نظر آتا ہے، اس نظر آنے میں تم جیسے ہیں۔

۳۔ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ: لیکن اس بات میں تم جیسے نہیں ہیں کہ اللہ کے ایک خاص احسان کے ہم لائق ہیں۔ ہمارے جس وجود پر اللہ کا احسان ہوتا ہے وہ تم جیسا نہیں ہے۔

۴۔ مَا کَانَ لَنَاۤ: یہ نہیں فرمایا کہ ہم معجزہ نہیں دکھا سکتے بلکہ فرمایا: اس کا تعلق بھی ارادہ رب سے ہے۔ لہٰذا اسی پر توکل کرنا چاہیے۔

ہم نے پہلے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام انبیاء علیہم السلام کو معجزات کے ساتھ مبعوث فرماتا ہے۔ اس کے بعد لوگوں کے مطالبے پر معجزات نہیں دکھائے جاتے چونکہ پہلے معجزے سے حجت پوری ہو چکی ہے۔

اہم نکات

۱۔ احسان الٰہی کے اہل ہونے سے رسول عام بشر سے ممتاز ہو جاتے ہیں : مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ۔۔۔۔

۲۔ معجزہ باذن خدا ہوتا ہے: لَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۔۔۔۔


آیت 11