آیت 9
 

اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ؕۛ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕۛ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ ؕ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا کَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ وَ اِنَّا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ﴿۹﴾

۹۔ کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں(مثلاً) نوح، عاد اور ثمود کی قوم اور جو ان کے بعد آئے جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے؟ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے منہ پر رکھ دیے اور کہنے لگے: ہم تو اس رسالت کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس میں ہم شبہ انگیز شک میں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا: بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ کلام جاری ہے اور اپنی قوم سے ایام اللہ کا تفصیلی ذکر فرما رہے ہیں۔ اور نوح، عاد اور ثمود کی قوم کا ذکر بعنوان مثال آیا ہے۔

۲۔ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ: جن کی تاریخ کا تفصیلی علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کے علاوہ ان قوموں کی تاریخ حیات کا کوئی واقف نہیں ہے اور ہم ہی وحی کے ذریعے اپنے رسولــ (ص) کو بیان کر رہے ہیں اور یہ قرآن کے وحی ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔

۳۔ فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ: لوگوں نے اپنے پیغمبران علیہم السلام کی دعوت کا اس طرح مقابلہ کیا کہ ابنیاء علیہم السلام کو آزادی سے بات کرنے کا بھی موقع نہیں دیتے تھے۔ اَیۡدِیَہُمۡ کی ضمیر کفار کی طرف اور اَفۡوَاہِہِمۡ کی ضمیر انبیاء علیہم السلام کی طرف لوٹنا مناسب اور سیاق کلام کے قریب معلوم ہوتی ہے۔ یعنی کفار اپنے ہاتھ انبیاء کے دہن پر رکھتے اور بات کرنے نہ دیتے تھے۔ بعض مفسرین دونوں ضمیروں کے انبیاء علیہم السلام کی طرف رجوع کے قائل ہیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے: وہ لوگ انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں کو انبیاء کے منہ میں دیتے تھے۔ یعنی بات کرنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔

اہم نکات

۱۔ تاریخ اقوام کے بارے میں انسانی معلومات نہایت محدود ہیں : ا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ ۔۔۔۔

۲۔ کفار انبیاء علیہم السلام کی اہانت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے: فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ ۔۔۔۔


آیت 9