آیت 153
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۵۳﴾

۱۵۳۔ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

تفسیر آیات

اس آیہ کریمہ اوربعد والی چند آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آنے والے عظیم اور صبر آزما واقعات کے لیے مؤمنین کو تیار فرما رہا ہے۔ چنانچہ ان آیات میں صَبرو صلٰوۃ سے مدد لینے، شہداء کو مردہ نہ کہنے اور خوف، بھوک، جانی و مالی آزمائش اور مصیبت کے موقع پر کلمہ استرجاع اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

واضح ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں قانون خلقت کے تحت بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر اسلام جیسی انقلابی تحریک سے وابستہ ایک نظریاتی انسان کو تو اس انسانی اور الٰہی مشن میں گوناگوں مشکلات کاسامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا سہارا لینے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک صبر جو انجام سے آگاہی کے ساتھ حاصل ہونے والی ایک روحانی طاقت کا نام ہے:

وَ کَیۡفَ تَصۡبِرُ عَلٰی مَا لَمۡ تُحِطۡ بِہٖ خُبۡرًا ۔ {۱۸ کہف : ۶۸}

اور اس بات پر بھلا آپ کیسے صبر کر سکتے ہیں جو آپ کے احاطۂ علم میں نہیں ہے؟

اگر انسان اس داخلی اور روحانی طاقت سے سرشار ہو تو وہ اندر سے کبھی کھوکھلا نہیں ہو گا، اس میں استقامت آئے گی اور کامیاب انجام سے عشق، اسے پہاڑ سے بھی زیادہ بلند و مضبوط حوصلہ دے گا۔ چنانچہ وہ کبھی کسی نمرود کی آگ یا کسی یزید کی تلوار سے مرعوب نہیں ہو گا۔

صبر کی ضد جَزع ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:

سَوَآءٌ عَلَیۡنَاۤ اَجَزِعۡنَاۤ اَمۡ صَبَرۡنَا مَا لَنَا مِنۡ مَّحِیۡصٍ ۔ {۱۴ ابراہیم : ۲۱}

ہمارے لیے یکساں ہے کہ ہم فریاد کریں یا صبر کریں، ہمارے لیے فرار کا کوئی راستہ نہیں۔

نماز او رصبر کا رشتہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ {۷۰ معارج: ۱۹ تا ۲۳}

انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، سوائے نماز گزاروں کے جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں۔

انسان کو اقامۂ نماز کے ذریعے اللہ کی ذات پربھروسا کرنا چاہیے۔ کیونکہ نماز ایک شخصیت ساز اور انسان ساز تربیتی نظام ہے، جس کی بدولت یہ بے ہمت انسان کائنات کی طاقت کے سرچشمے سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ پس وہ انسان کس قدر عظیم اور طاقتور ہو گا، جس کا بھروسا ذات الٰہی پر ہو۔

اسی سورہ کی آیت ۴۵ میں صبر و نماز کے سلسلے میں تفسیر بیان ہو چکی ہے۔

احادیث

٭ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

لَا تَتَھَاوَنْ بہ وَ لاَ بِصَلَاتِکَ فَاِنَّ النَّبِیْ قَالَ عِنْدَ مَوْتِہٖ: لَیْسَ مِنِّی مَنْ اِسْتَخَفَ بِصَلَاتہٖ لَا یَرِدُ عَلٰی الْحَوْضِ لَا وَ اللّٰہ ۔ {بحار الانوار ۸۰ : ۹}

تم اپنی نماز سے تساہل نہ برتو کیونکہ رسول خدا (ص) نے اپنی وفات کے وقت فرمایا : وہ شخص مجھ سے نہیں ہے جو نماز کو خفیف سمجھتا ہے۔ وہ میرے پاس حوض پر نہیں پہنچ سکے گا۔ قسم بخدا وہ نہیں پہنچے گا۔

اِنَّ شَفَاعَتَنَا لَا تَنَالُ مُسْتَخِفًّا بِالصَّلَاۃِ ۔ {الفقیہ ۱ : ۲۰۶}

ہماری شفاعت اس شخص کو نہیں پہنچے گی جو نماز کو سبک و خفیف سمجھے۔

٭امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (ع)نے صبر کی تفسیر میں فرمایا:

اَلصَّبْرُ اَلصِّیَامُ وَ قَالَ اِذَا نَزَلَتْ بِالرَّجُلِ النَّازِلَۃُ وِ الشَّدِیدَۃُ فَلْیَصُمْ ۔ {صول الکافی ۴ :۶۳}

صبر سے مراد روزہ ہے اگر کسی کو کوئی حادثہ اور شدید دقت پیش آئے تو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے۔

اہم نکات

۱۔ نماز کے ذریعے یہ کمزور انسان کائنات کی عظیم ترین طاقت (اللہ ) سے قوت حاصل کرتا ہے۔

۲۔ الہٰی انسان کامیاب انجام سے آگاہی کے باعث اضطراب کا شکار نہیں ہوتا اور ثابت قدمی کے ساتھ کامیابی کی منازل طے کرتا ہے : اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ۔۔۔۔

تحقیق مزید: بحار الانوار ۷۹ : ۲۳۲، مصباح الشریعۃ ص ۱۸۵۔


آیت 153