آیات 7 - 8
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوۡنَ ۙ﴿۷﴾

۷۔ بے شک جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی ہی پر راضی ہیں اور اسی میں اطمینان محسوس کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں،

اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کی پاداش میں جن کا یہ ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا: جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے، اس کے دو اسباب بیان ہوئے ہیں:

وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا: ایک سبب تو یہ ہے کہ وہ اس دنیوی زندگی پر راضی ہیں۔ اسی کو مقصد حیات تصور کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ زندگی عارضی ہے، انسان کے لیے معراج نہیں ہے۔

ii۔ وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا: دوسرا سبب اس زندگی پر اطمینان اور سکون ہے۔ دل میں آخرت کا تصور نہیں ، کوئی تردد نہیں۔ آخرت نہ ہونے اور زندگی، اس دنیا کی زندگی میں منحصر ہونے پر اطمینان ہے۔ یہ کاذب اطمینان ان کو تصور آخرت کے نزدیک آنے نہیں دیتا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے: جو لوگ قیامت کی توقع نہیں رکھتے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس دنیا پر راضی اور مطمئن رہتے ہیں۔

۳۔ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوۡنَ: منکرین معاد کا دوسرا گروہ غفلت کا شکار لوگ ہیں۔ وہ دنیا اور آخرت کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ ایک لا پرواہی کی دنیا میں گم رہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے جو ایک پسماندہ گاؤں میں کسی سردار کی زمین پر کام کرتے ہیں ، وہ سوچتے ہی نہیں۔ ایک واہمی چیز کو ذہن میں رکھتے ہیں اور بس۔ آخرت پر ایمان، دین کا بنیادی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کی نفی کی صورت میں نہ کسی شریعت کے لیے گنجائش باقی رہتی ہے، نہ نبوت و رسالت کے لیے بلکہ سرے سے دین کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

اہم نکات

۱۔ جو لوگ اللہ کی بارگاہ میں جانے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ دنیاوی زندگی کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

۲۔ دنیوی زندگی کو منتہائے مقصد بنانے ولے بد نصیب ہوتے ہیں۔


آیات 7 - 8