آیت 99
 

وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرۡبَۃٌ لَّہُمۡ ؕ سَیُدۡخِلُہُمُ اللّٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾

۹۹۔ اور انہی بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقرب اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ہاں یہ ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اللہ انہیں عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ: بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ سب بدو ایک جیسے نہیں ہیں۔ صحرا نشین اور دور افتادہ جگہوں پر ہونے کے باوجود ایمان کے نور سے ان کے دل روشن ہوتے ہیں۔

۲۔ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ: صحرا نشینوں میں سے اہل ایمان کا ذکر ہے۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں ، اس کے کئی مقاصد ان کے سامنے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے قرب الٰہی حاصل ہو جائے۔ وہ اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ مال قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔

۳۔ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ: دوسرا یہ کہ رسولؐ کی دعائیں ان کو نصیب ہو جائیں۔ چونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے لیے یہ حکم ہے کہ زکوٰۃ و صدقات دینے والوں کے لیے دعا کریں :

وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ۔۔ (۹ توبۃ:۱۰۳)

اور ان کے حق میں دعا کریں یقینا آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔

اہم نکات

۱۔ راہ خدا میں خرچ کرنا رضائے خدا و دعائے رسولؐ کا ذریعہ ہے۔


آیت 99