آیت 113
 

وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ وَ رَحۡمَتُہٗ لَہَمَّتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّضِلُّوۡکَ ؕ وَ مَا یُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَضُرُّوۡنَکَ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ وَ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ ؕ وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور (اے رسول) اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا حالانکہ وہ خود کو ہی غلطی میں ڈالتے ہیں اور وہ آپ کا تو کوئی نقصان نہیں کر سکتے اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان باتوں کی تعلیم دی جنہیں آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ: لوگ اگرچہ کوشش کریں کہ آپ (ص) ان کی خواہشات کے مطابق عمل کریں اور آپ کوئی غلط فیصلہ کریں، ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو گی اور وہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کی دو وجوہات بیان فرمائی ہیں:

i۔ اللہ نے ان پر کتاب و حکمت نازل کی۔

ii۔ انہیں علم عنایت فرمایا۔

۲۔ وَ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ: اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کتاب و حکمت کے علاوہ بھی تعلیم کے لیے رسول اللہ (ص) کے پاس خصوصی ذرائع موجود تھے۔

۳۔ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ: جن کی وجہ سے رسول خدا (ص) علم و معرفت اور کشف حقائق کی اس منزل پر فائز تھے، جس کے بعد خلاف عصمت کسی غلطی کے سرزد ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ چنانچہ علم و یقین کا نتیجہ عصمت ہے۔ البتہ علم و یقین حاصل ہونے کے بعد عصمت قائم رکھنے پر مجبور بھی نہیں ہوتا، بلکہ یہاں عزم و ارادہ، نفس کی پاکیزگی اور محبت الٰہی کی وجہ سے اپنے اختیار سے عصمت پر قائم رہتا ہے۔ اسی وجہ سے معصوم کی عصمت کو فضیلت حاصل ہے۔

۴۔ وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ: اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ چیزوں کے ساتھ رسول اللہؐ کو ایک فضل بھی حاصل ہے۔

اہم نکات

۱۔ رسول (ص) کو اللہ کی طرف سے کتاب، حکمت، علم اور فضل عظیم حاصل ہے۔


آیت 113