نساء نا سے مقصود


فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

61۔ چوتھی صدی کے مقتدر عالم جناب ابوبکر جصاص احکام القرآن ص 15 میں لکھتے ہیں: رواۃ السیر و نقلۃ الاثر لم یختلفوا فی ان النبی صلی اللّہ علیہ (والہ) وسلم اخذ بید الحسن و الحسین و علی و فاطمہ رضی اللّہ عنھم ثم دعی النصاریٰ الذین حاجوہ الی المباھلۃ ”سیرت نگاروں اور مورخین میں کسی کو اس بات سے اختلاف نہیں کہ جناب رسولِ خدا ﷺ نے حسنین فاطمہ اور علی علیہم السلام کے ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی۔“ علامہ زمحشری نے اس جگہ ایک اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ وَ نِسَآءَنَا اور اَنۡفُسَنَا میں ایک ایک ہستی حضرت فاطمہ (س) اور حضرت علی علیہ السلام پر اکتفا کیا گیا، لیکن اَبۡنَآءَنَا میں ایک ہستی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ چونکہ فاطمہ (س) اور علی علیہ السلام کی کوئی نظیر نہیں تھی، لہٰذا ان کے ساتھ کسی اور کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی، لیکن اَبۡنَآءَنَا میں دو ہستیاں ایک دوسرے کی نظیر تھیں، اس لیے یہاں دونوں کو بلایا۔

سید بن طاؤس سعد السعود میں لکھتے ہیں: میں نے محمد ابن العباس ابن مروان کی کتاب انزل من القرآن فی النبی و اہل بیت ہمیں دیکھا کہ حدیث مباہلہ پچاس سے زائد صحابیوں سے مروی ہے۔ بعض ترجمہ نگاروں نے اَنْفُسَـنَا کا یہ ترجمہ کیا ہے: ”آؤ ہم اور تم خود بھی آ جائیں“۔ جبکہ آیت میں ”آنے“ کا نہیں”بلانے“ کا ذکر ہے اور انسان اپنے آپ کو نہیں بلاتا۔ اگر نفس سے مراد خود رسول اللہ ﷺ ہیں تو حضرت زھرا اور حسنین علیہم السلام کو ساتھ لینے سے حکم خدا کی تکمیل ہو گئی لیکن حضرت علی علیہ السلام کو ساتھ رکھنے کی آیت میں کس طرح گنجائش ہو سکتی ہے؟ تفسیر المنار نے علامہ عبدہ کا یہ قول اپنے صفحات پر ثبت کر کے محدثین، خاص طور پر اربابِ صحاح کے علمی مقام کو مخدوش کر دیا: مباہلہ میں حضور ﷺ نے صرف علی، فاطمہ اور حسنین علیہم السلام کو ساتھ لیا۔ یہ متفقہ روایت ہے، لیکن یہ شیعوں کی روایت ہے اور انہوں نے اپنے خاص مقصد کے لیے اسے ہوا دی ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے اہل سنت میں بھی یہ بات رائج ہو گئی اور اس حدیث کو گھڑنے والوں نے آیت کی تطبیق کا خیال بھی نہیں رکھا، کیونکہ عربی محاورہ میں نساء کہ کر اپنی بیٹی مراد نہیں لی جاتی۔ (المنار 3: 322)۔

جواب: 1۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اربابِ صحاح مثلاً صحیح مسلم اور صحیح ترمذی، محدثین، مؤرخین اور مفسرین کے پاس کوئی معیار نہیں ہے کہ وہ ایک من گھڑت روایت پر متفق ہو جاتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کے بعد کسی صحیح محدث، کسی راوی اور کسی جرح و تعدیل کرنے والے پر وثوق نہیں رہتا۔ 2۔کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ نساء کے معنی بیٹی ہیں اور روایات کا مفہوم بھی یہ نہیں ہے بلکہ روایات اس بات کو بالاتفاق بیان کرتی ہیں کہ حضورﷺ نے عملاً مباہلہ کے لیے نِسَآءَنَا کی جگہ صرف حضرت فاطمہ (س) کو اور اَنۡفُسَنَا کی جگہ صرف حضرت علی علیہ السلام کو ساتھ لیا۔ لہٰذا یہ حضرات ان الفاظ کے مصداق قرار پائے، نہ کہ مفہوم۔ ورنہ مفہوم و معنی میں گنجائش کے باوجود ان کے علاوہ کسی کو مباہلہ میں شریک نہیں کیا۔