قوم عاد پر عذاب


فَکُلًّا اَخَذۡنَا بِذَنۡۢبِہٖ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِ حَاصِبًا ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَخَذَتۡہُ الصَّیۡحَۃُ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ خَسَفۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَغۡرَقۡنَا ۚ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظۡلِمَہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ پس ان سب کو ان کے گناہ کی وجہ سے ہم نے گرفت میں لیا پھر ان میں سے کچھ پر تو ہم نے پتھر برسائے اور کچھ کو چنگھاڑ نے گرفت میں لیا اور کچھ کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو ہم نے غرق کر دیا اور اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا مگر یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے۔

40۔ چنانچہ گناہوں کی سزا کے طور پر قوم عاد پر پتھر برسائے، قوم ثمود کو دھماکے سے تباہ کیا، قارون کو زمین میں دھنسا دیا اور فرعون کو غرق کر دیا۔

یہ سزائیں خود ان کے کرتوتوں کے لازمی نتائج کے طور پر وقوع پذیر ہوئیں۔ ان سزاؤں کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے ان پر ظلم کیا ہو۔ یہاں اہل مکہ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ تم تاریخ کے اس مکافات عمل سے مستثنیٰ نہیں ہو۔ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے والا ہے۔