فساد فی الارض کی سزا


اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور روئے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا بس یہ ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا ملک بدر کیے جائیں، یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔

33۔ شان نزول: کافی میں روایت ہے کہ بنی ضبّہ کے کچھ لوگ بیماری کی حالت میں رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول خدا ﷺ نے ان سے فرمایا: ہمارے ہاں قیام کرو، صحت یاب ہونے پر میں تمہیں ایک دستہ کے ہمراہ بھیجوں گا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں مدینے سے باہر کسی جگہ رکھیں۔ حضور ﷺ نے انہیں زکوٰۃ کے اونٹوں کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ ان کا دودھ پئیں۔ چنانچہ وہ شفایاب ہوئے تو ان لوگوں نے ان تین افراد کو قتل کیا جو اونٹوں پر مامور تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر ملی تو حضرت علی علیہ السلام کو روانہ کیا اور یمن کی سرزمین کے نزدیک سے ان کو اسیر کر کے لایا گیا۔ اس واقعہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

خدا اور رسول سے لڑائی اور فساد فی الارض کا مطلب اس کے وضع کردہ نظام اور قانون کی پامالی ہے۔