ایک کی حق تلفی سب کی حق تلفی


مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ ۚۛؔ کَتَبۡنَا عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ لَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا بِالۡبَیِّنٰتِ ۫ ثُمَّ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ فِی الۡاَرۡضِ لَمُسۡرِفُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ (حکم) مقرر کر دیا کہ جس نے کسی ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی اور بتحقیق ہمارے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے پھر اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر لوگ ملک میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے۔

32۔ انسانی وحدت کا ایک اعلیٰ نمونہ کہ ایک فرد کی حق تلفی گویا تمام انسانوں کی حق تلفی ہے۔ انسانی اقدار کی پامالی خواہ ایک فرد کے معاملے میں ہی کیوں نہ ہو تمام انسانی اقدار کی پامالی ہے۔ اسی طرح ایک جان کو بچانا گویا تمام انسانی جانوں کو بچانا ہے۔

بنی اسرائیل کے لیے بیان شدہ اس انسان ساز قانون کا ذکر بائبل میں نہیں ملتا، البتہ قرآنی اعلان کی شہادت تلمود میں موجود ہے۔