اسلامی حکومت کی سٹیٹ پراپرٹی


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ ۪ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱﴾

۱۔(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں، کہدیجئے:یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ کا خوف کرو اور باہمی تعلقات مصالحانہ رکھو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔

1۔ الانفال جمع ہے نفل کی۔ اس کے معنی زائد کے ہیں۔ جو واجب کے علاوہ ہو اسے نفل کہا جاتا ہے۔ جنگی غنیمت کو انفال اس لیے کہا جاتا ہے کہ مسلمان راہ خدا میں لڑتے ہیں اور غنیمت ایک اضافی انعام ہے۔

اگرچہ انفال کا حکم جنگ بدر کی غنیمت کے بارے میں آیا، تاہم یہ حکم ہر قسم کے انفال یعنی اموال زائد کو شامل ہے۔ مثلاً متروک آبادیاں، پہاڑوں کی چوٹیاں، جنگل، غیرآباد زمینیں اور لاوارث املاک وغیرہ، جو کسی کی ملکیت نہ ہوں۔ اسی طرح وہ اموال جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے قبضے میں آئے ہوں، جنہیں فئی کہتے ہیں۔ یہ سب اللہ اور رسول ﷺ کی ملکیت ہیں۔