گھر کا سربراہ


اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ؕ وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا﴿۳۴﴾

۳۴۔ مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے، پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، اللہ نے جن چیزوں (مال اور آبرو) کا تحفظ چاہا ہے، (خاوند کی) غیر حاضری میں ان کی محافظت کرتی ہیں اور جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو (اگر باز نہ آئیں تو) خواب گاہ الگ کر دو اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو، یقینا اللہ بالاتر اور بڑا ہے۔

34۔ مرد عورتوں کے محافظ اور نگہبان ہیں۔ یعنی عائلی نظام میں مرد کو قیّم اور ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ چونکہ مردوں کو عقل و تدبر اور زندگی کی مشکلات کا تحمل اور مقابلہ کرنے میں عورتوں پر برتری حاصل ہے اور عورتوں کو جذباتیت اور مہر و شفقت میں مردوں پر برتری حاصل ہے۔ یہاں سے ان دونوں کی ذمہ داریاں بھی منقسم ہو جاتی ہیں۔

اسلام کے عائلی نظام میں مرد کو جو برتری حاصل ہے۔ اس سے عورت کا استقلال و اختیار سلب نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے مقام پر مرد و زن کی ذمے داریاں ہیں۔ عورت بچوں کو مہر و محبت کے ذریعے نفسیاتی غذا بہم پہنچاتی ہے۔ مرد طاقت و قوت کے ذریعے جسمانی غذا فراہم کرتے ہیں۔ عورت بچوں کی دیکھ بھال میں راتیں جاگتی ہے۔ مرد حصول رزق کے لیے دن رات ایک کرتا ہے۔ عورت بچوں کو داخلی خطرات سے بچاتی ہے، مرد بیرونی دشمن کا مقابلہ کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عورت کو انسانی زندگی سے مربوط داخلی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، جبکہ مرد کو بیرونی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ یہ بات مرد و زن کی جسمانی ساخت و بافت اور نفسیاتی خصوصیات سے بھی عیاں ہے۔ عورت ضعیف النفس، نازک مزاج، حساس ہوتی ہے اور اس کے ہر عمل پر جذبات غالب ہوتے ہیں، جب کہ مرد طاقتور، جفاکش اور اس کے ہر عمل پر عقل و فکر حاکم ہوتی ہے۔

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ؕ وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا﴿۳۴﴾

۳۴۔ مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے، پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، اللہ نے جن چیزوں (مال اور آبرو) کا تحفظ چاہا ہے، (خاوند کی) غیر حاضری میں ان کی محافظت کرتی ہیں اور جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو (اگر باز نہ آئیں تو) خواب گاہ الگ کر دو اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو، یقینا اللہ بالاتر اور بڑا ہے۔

34۔ مرد عورتوں کے محافظ اور نگہبان ہیں۔ یعنی عائلی نظام میں مرد کو قیّم اور ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ چونکہ مردوں کو عقل و تدبر اور زندگی کی مشکلات کا تحمل اور مقابلہ کرنے میں عورتوں پر برتری حاصل ہے اور عورتوں کو جذباتیت اور مہر و شفقت میں مردوں پر برتری حاصل ہے۔ یہاں سے ان دونوں کی ذمہ داریاں بھی منقسم ہو جاتی ہیں۔

اسلام کے عائلی نظام میں مرد کو جو برتری حاصل ہے۔ اس سے عورت کا استقلال و اختیار سلب نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے مقام پر مرد و زن کی ذمے داریاں ہیں۔ عورت بچوں کو مہر و محبت کے ذریعے نفسیاتی غذا بہم پہنچاتی ہے۔ مرد طاقت و قوت کے ذریعے جسمانی غذا فراہم کرتے ہیں۔ عورت بچوں کی دیکھ بھال میں راتیں جاگتی ہے۔ مرد حصول رزق کے لیے دن رات ایک کرتا ہے۔ عورت بچوں کو داخلی خطرات سے بچاتی ہے، مرد بیرونی دشمن کا مقابلہ کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عورت کو انسانی زندگی سے مربوط داخلی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، جبکہ مرد کو بیرونی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ یہ بات مرد و زن کی جسمانی ساخت و بافت اور نفسیاتی خصوصیات سے بھی عیاں ہے۔ عورت ضعیف النفس، نازک مزاج، حساس ہوتی ہے اور اس کے ہر عمل پر جذبات غالب ہوتے ہیں، جب کہ مرد طاقتور، جفاکش اور اس کے ہر عمل پر عقل و فکر حاکم ہوتی ہے۔