خلافت الٰہیہ کے اصول


وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔

55۔ خلافت سے مراد صرف غلبہ اور اقتدار نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں، بلکہ جس خلافت کا اس آیت میں وعدہ دیا جا رہا ہے وہ درج ذیل اصولوں پر قائم ہے۔ i ایمان۔ii عمل صالح iii۔ ان کے پسندیدہ دین کی پائداری۔iv خوف کے بعد امن۔ v شرک سے پاک خالص اللہ کی بندگی۔ لہذا ہر منصف اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی بات ہو رہی ہے جن کے اقتدار کے سائے میں دین کو استحکام ملے گا۔ واضح رہے حکومت کا استحکام اور ہے اور دین کا استحکام اور ہے، بلکہ مسلمانوں کا استحکام اور ہے اور اسلام کا استحکام اور ہے۔ ممکن ہے کسی دور میں اسلام کے زرین اصولوں کے استحکام کے لیے جنگ لڑی جا رہی ہو، مسلمانوں میں بے چینی ہو، لیکن اسلام کو تحفظ مل رہا ہو۔ چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کی حکومت کو تو استحکام ہو لیکن اسلامی اصول پامال ہو رہے ہوں اور دین کی تمکین و استحکام، اس کے نظام عدل و انصاف کا قیام، ہر قسم کے ظلم و زیادتی کو جڑ سے اکھاڑ دینا اور ہر قسم کے شرک سے پاک اللہ کی بندگی ہے اور ظہورمہدی (عج) کے بعد ہی یہ وعدہ پورا ہو سکتا ہے۔