رسول اور بشری تقاضے


وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ ذُرِّیَّۃً ؕ وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ﴿۳۸﴾

۳۸۔ بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے اور انہیں ہم نے ازواج اور اولاد سے بھی نوازا اور کسی رسول کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے، ہر زمانے کے لیے ایک دستور ہوتا ہے۔

38۔ ایک عامیانہ اعتراض کا جواب ہے جو رسول کریم ﷺ کے انسانی پہلو پر کیا جاتا تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو بیوی اور بچے رکھتا ہے۔ اللہ کے نمایندے کو خواہشات سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ جواب میں فرمایا: اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ اپنے انبیاء علیہم السلام کو انسانی تقاضوں کے دائرے میں رکھتا ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے نمونہ عمل بن جائیں اور قولاً و عملًا حجت پوری ہو جائے۔

دوسرا اعتراض یہ تھا کہ سابقہ انبیاء کے واضح معجزات تھے، آپ ﷺ کون سا معجزہ لے کر آئے ہیں؟ جواب میں فرمایا: لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ ۔ سابقہ امتوں کے لیے محسوس معجزات کی ضرورت تھی، وہ عقلی بلوغ کو نہیں پہنچے تھے۔ اب انسان فکری بلوغت کو پہنچ گیا ہے۔ اس لیے محسوس معجزات کی جگہ معقول معجزات کی ضرورت ہے۔ سابقہ ادوار کی شریعتیں محدود تھیں، اس لیے محسوس معجزات دکھائے تو مشاہدہ کرنے والوں تک محدود رہے۔ نبی آخر زماں ﷺ کی شریعت دائمی ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ معجزہ بھی دائمی ہو۔ لہٰذا دور موسیٰ علیہ السلام کا دستور، دور عیسیٰ علیہ السلام سے جدا ہے۔ دور نوح علیہ السلام کا دستور تو اور جدا ہے کہ یہاں تو انسان ابتدائی دور میں محسوس معجزوں کے بھی اہل نہ تھے، اس لیے ان کو غرق کر دیا۔ دور ختم المرسلین ﷺ ان سب سے جدا ہے۔