صبر ہر تحریک کا بنیادی عنصر


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا ۟ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۲۰۰﴾٪

۲۰۰۔اے ایمان والو!صبر سے کام لو استقامت کا مظاہرہ کرو، مورچہ بند رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔

200۔ اصۡبِرُوۡا : صبر و تحمل ہر تحریک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، لیکن امت مسلمہ نے ایک جامع نظام حیات کی تحریک چلانی ہے۔ یہ راستہ خون کی ندیوں، مخالف آندھیوں، مصائب کے پہاڑوں اور دوستوں کی لاشوں پر سے گزرتا ہے۔ ساتھ دینے والوں کی قلت، دشمنوں کی کثرت، قریبیوں کی بے وفائی اور دشمنوں کی چالاکی، ساتھیوں کی سہل انگاری اور مدمقابل کی نیرنگی جیسے کٹھن مراحل طے کرنا پڑتے ہیں، لہٰذا اس کے اراکین کے صبر و تحمل کا دائرہ بھی جامع اور وسیع ہونا چاہیے۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے بھی صبر درکار ہے۔ بھوک اور ناداری میں بھی مال حرام سے اجتناب، غیظ و غضب، جذبۂ انتقام اور قوت کے باوجود تجاوز اور ظلم سے پرہیز اور دیگر ہر قسم کی خواہشات کا مقابلہ بھی صبر و تحمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کی بنیاد بھی صبر ہے۔جب تک صبر و حوصلہ نہ ہو اطاعت رب کا بوجھ اٹھانا ممکن نہ ہو گا۔